فاروق قیصر کہتے تھے کہ جو وہ بول نہیں سکتے، وہ ’انکل سرگم‘ کہہ دیتے۔ جبھی وہ معاشرے اور حکمرانوں کے رویوں کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں ’انکل سرگم‘ کی زبانی بیان کردیتے۔
صرف یہی پتلی کردار نہیں بلکہ مسٹر ہیگا، شرمیلی، ماسی مصیبتے، رولا اور گورا صاحب بھی اِن دکھتی سماجی ناانصافیوں کو شگفتہ انداز پیش کرتے تو ہر چہرہ کھل اٹھتا۔
بھلا کیسے فراموش کرسکتے ہیں کہ فاروق قیصر کے لکھے ہوئے شوخی اور طنز سے بھرے جملوں کو جو خاصے معنی خیز ہوتے۔ وہ اُن برائیوں اور مشکلات کی نشاہدگی کرتے، جن سے ہر انسان کا روز کسی نہ کسی طرح واسطہ پڑتا رہتا۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ فاروق قیصرجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد کوئی فیصلہ نہیں کر پائے کہ وہ آخر کیا بننا چاہتے ہیں۔ خواہش تو پائلٹ بننے کی تھی لیکن دراز قد کی وجہ سے یہ سپنا بھی پورا نہ ہوا۔ کیونکہ انہیں بتایا گیا کہ ان کے قد و قامت کے جہاز کہاں سے لائے جائیں گے۔
ڈرائنگ میں تو بچپن سے ہی مشاق تھے۔ اسی لیے70کی دہائی میں کزن نے ان کے اس ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ لاہورکے نیشنل سکول آف آرٹس میں داخلہ لیں، جو اُس زمانے میں میو سکول آف انڈسٹریل آرٹس کہلاتا تھا۔ بہترین کارکردگی ایسی دکھائی کہ پہلے ہی سال سکالرشپ مل گئی۔
فاروق قیصر کی عادت تھی کہ کلاس میں فارغ اوقات میں ہم جماعتوں اور اساتذہ کے بارے میں کوئی نہ کوئی نظم بلیک بورڈ پر لکھ دیتے، جس پر ساتھیوں کی جانب سے پذیرائی بھی ملتی۔ پرنسپل کو کسی نے اس جسارت کی چغلی کی تو انہوں نے سرزنش کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ بلکہ تاکید کی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہونا چاہیے۔ فاروق قیصر کا کہنا تھا کہ اس حوصلہ افزائی نے انہیں نئی ہمت اور جوش دیا لیکن چونکہ ڈرائنگ کرنا ان کا شوق تھا، اس سلسلے کو انہوں نے نہیں چھوڑا۔ درس گاہ کی طالبات کی تصویریں بنا کروہ خاصے مشہور ہوچکے تھے۔
فاروق قیصر کی زندگی میں اُس وقت ڈرامائی موڑ آیا، جب پاکستان میں ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا۔ شعیب ہاشمی ’اکڑ بکڑ‘ کرتے تھے، جنہیں اس شو کے لیے ’سیسم سٹریٹ‘ کی ’بگ برڈ‘ کی طرح ایک بطخ کی کٹھ پتلی پیش کرنی تھی۔ فاروق قیصر تک رسائی کی اور انہیں ’بگ برڈ‘ کی طرح کی بطخ بنانے کا ٹاسک ملا۔ تین چار دن کے اندر ہی فاروق قیصر نے بطخ کی یہ کٹھ پتلی بنا دی، جسے پرفارم خود انہیں ہی کرنا تھا جبکہ آواز شعیب ہاشمی کی استعمال ہونی تھی۔
ہوا کچھ یوں کہ فاروق قیصرآدھے گھنٹے تک بطخ کی اس قد آور کٹھ پتلی کو جملوں کے اعتبار سے حرکت دیتے دیتے اس قدر تھکن کا شکار ہوئے کہ بے ہوش ہی ہوگئے۔ پتا چلا کہ انہوں نے کٹھ پتلی تو بنادی تھی لیکن اس میں اپنے لیے سانس لینے کی کوئی جگہ ہی نہیں چھوڑی تھی۔ تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کٹھ پتلی سازی میں مہارت حاصل کریں گے۔ اسی لیے رومانیہ کا رخ کیا، جہاں انہوں نے اس فن میں گرافکس آرٹ میں باقاعدہ ڈگری حاصل کی۔
پاکستان واپسی کے بعد ان کے پرانے دوست قیصر فاروق کٹھ پتلیوں پر مبنی ٹی وی شو تیار کرنے کا ارادہ کیا تو فاروق قیصر نے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ ’انکل سرگم‘ کا کردار یہیں سے تخلیق ہوا۔
فاروق قیصر کے مطابق اس کردار کے خدو خال ان کے رومانیہ میں موجود ایک استاد سے مشابہت رکھتے تھے۔ ابتدا میں اس کردار کا نام ’پروفیسر سرگم‘ تھا، جو ننھے منے بچوں کو کھیل ہی کھیل میں جہاں اچھی باتیں بتاتا وہیں چلبلے گیت گا کر اپنے فن کا اظہار کرتا۔ مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ پی ٹی وی کو اس نام پر اعتراض تھا۔ اسی لیے ’پروفیسر‘ ہٹا کر ’انکل‘ کردیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
10جنوری 1977کو ’کلیاں‘ کے سلسلے کا پہلا پروگرام نشر ہوا، جس نے غیر معمولی شہرت حاصل کی، جس میں ’انکل سرگم‘ اور دیگر کٹھ پتلی کردار چبھتے ہوئے جملوں کی ادائیگی کرکے لوٹ پوٹ کرنے کی دلچسپ کوشش میں مصروف رہتے۔ انکل سرگم کے لیے فاروق قیصر کی آواز استعمال کی جاتی۔ بچوں کے لیے شروع ہونے والا یہ شو دھیرے دھیرے بڑوں کو بھی پسند آنے لگا۔
بلیک اینڈ وائٹ سے کلر دور تک کا سفر کرنے والا یہ پروگرام لگ بھگ تین سال تک کامیابی کے ساتھ نشر ہوتا رہا، جس میں ہر گزرتے پروگرام کے ساتھ مختلف کٹھ پتلی کرداروں کی شمولیت ہوتی چلی گئی۔ ’کلیاں‘ پی ٹی وی کا وہ پہلا رنگین پروگرام تھا، جسے جرمنی میں ہونے والے ٹی وی مقابلے میں ایوارڈ سے بھی نواز ا گیا۔ فاروق قیصر کہتے کہ اس کا ایک اور مشہور کردار ’ماسی مصیبتے‘ ان کے گھر میں آنے والی خاتون سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا، جو دنیا جہاں کی خبریں لے کر گھر آتی اور جب آتی تو والدہ بے اختیار کہتیں کہ ’کیا مصیبت ہے۔‘
فاروق قیصر نے بعد میں سرگم سرگم، ڈاک ٹائم، سیاسی کلیاں اور سرگم بیک ہوم کے ذریعے بھی اپنے کٹھ پتلی کرداروں کو سکرین پر دکھایا۔ ان کے مطابق کوئی 120 کردار وہ پیش کرچکے تھے۔ جن میں 20 کے قریب تو عوامی مقبولیت حاصل کرگئے۔ ’انکل سرگم‘ کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ایک پروگرام میں انکل سرگم کی شادی کرادی گئی جس پر ہزاروں کی تعدا د میں خطوط لکھ کر ناظرین نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ جبھی اگلی قسط میں یہ ڈرامائی رنگ دیا گیا کہ شادی والے مناظر دراصل انکل سرگم خواب میں دیکھ رہے تھے۔
فاروق قیصر صرف آرٹسٹ ہی نہیں بلکہ نغمہ نگار، کارٹونسٹ، ادیب اور کالم نگار بھی تھے۔ ہور پیچھو، کالم گلوچ، میٹھے کریلے اور میرے پیارے اللہ میاں ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ فاروق قیصر کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ٹی وی کے لیے سب سے زیادہ تین ہزار گیت لکھے۔ کہتے کہ شعیب ہاشمی کی خواہش پر ایک ملی نغمہ لکھا، جس کی اصلاح کے لیے فیض احمد فیض کے روبرو ہوئے۔ جنہوں نے کلام کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اس کا دوسرا بند خود لکھ کر فاروق قیصر کے حوالے کیا۔ وہ اسے اپنے لیے اعزاز سمجھتے۔ بدقسمتی سے یہ ملی نغمہ سنسر کی نذر ہوگیا۔
فاروق قیصر کا پتلی تماشا صرف پاکستان تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی ٹیم کے ساتھ اسے پیش کیا اور پذیرائی حاصل کی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں ایک مذہبی جماعت کے لاکھوں کے اجتماع میں بھی وہ اپنی کٹھ پتلیوں کی فنکاری کا اظہار کرچکے ہیں۔ فاروق قیصر نے بھارت میں بھی دو سال تک کٹھ پتلی فنکاری کے علاوہ سکرپٹ کا ہنر پڑھایا ہے۔
مختلف پاکستانی سربرہان مملکت کے سامنے پرفارم کرنے کا اعزاز ملا۔ ضیا الحق کے سخت آمریت والے دور میں وہ کئی بار تنقید سے بھرے جملوں کا اظہار انکل سرگم اور دیگر کرداروں کے ذریعے ادا کروا دیتے۔ پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر کا افتتاح ہوا تو صدر ضیاالحق مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ فاروق قیصر کو انکل سرگم کی ٹیم کے ساتھ پرفارم کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان کے مطابق شو سے پہلے پی ٹی وی حکام نے یہ پابندی لگائی کہ اپنی پرفارمنس کا سکرپٹ پہلے سے لکھ کر دیں، تاکہ اگر صدر کے سامنے انہوں نے سکرپٹ سے ہٹ کر کوئی بات کی تو وہ صدر کو مہر لگا یہ سکرپٹ دکھا دیں گے کہ فاروق قیصر نے اپنی مرضی سے یہ جملے ادا کیے ہیں۔
فاروق قیصر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی مواقع پر اپنے کرداروں کے ذریعے صدر ضیا الحق کے مختلف اقدامات پر تنقید بھی کی اور حیران کن طور پر انہوں نے اعتراض کرنے کی بجائے ان احکامات کو تبدیل یا منسوخ بھی کرایا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار ان سے کہا تھا کہ انہوں نے فاروق قیصر کے کچھ پروگرام دیکھے ہیں، جس پر فاروق قیصر نے برجستہ کہا کہ اگر وہ پورے پروگرام دیکھتے تو اور اچھی حکومت کرتے۔
فاروق قیصر کے مطابق طنز و مزاح کا اصل حسن یہ ہے کہ آپ کو بات کہنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ اس میں شائستگی کے ساتھ ساتھ اصلاح کا پہلو بھی ہو۔ فاروق قیصر نے موجودہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بھی فنڈز ریزنگ اور بچوں کی تعلیم کے بیشتر پروگرامز میں اپنی خدمات انجام دیں۔
پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ امتیاز یافتہ فاروق قیصر کو شکوہ صرف یہ رہا کہ ہر حکمران نے ملک میں آرٹ اور تھیٹر اکیڈمی کے لیے وعدے تو بہت کیے لیکن یہ کبھی وفا نہ ہوسکے۔
50 سال سے فن کی دنیا سے منسلک رہنے والے فاروق قیصر مانتے تھے کہ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے لیکن درست راہ کا تعین اور رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے یہ سارا ٹیلنٹ ضائع ہوتا جارہا ہے۔
76برس کے فاروق قیصر کے بارے میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہیں لفظوں کی بازی گری کا فن خوب آتا تھا۔ وہ درحقیقت اس جگہ چوٹ مارتے تھے جہاں مارنی ضروری ہوتی تھی۔ انکل سرگم تو چلے گئے لیکن پیچھے ہر وقت کھکھلانے اور شگوفوں کی بہار لانے والے مسٹر ہیگا، شرمیلی، ماسی مصیبتے، رولا اور گورا صاحب کو ہمیشہ رنجیدہ اور اداس رہنے کی وجہ دے گئے۔