کبھی کبھار میں سوچتی ہوں انسان کتنا ظالم ہو سکتا ہے۔ کیا انسان کے ظلم کی کوئی حد ہے؟ اگلے روز ایک خبر پڑھی۔ ایک ماں جس نے شوہر کی وفات کے بعد کئی مشکلات برداشت کر کے بیٹے کو پالا، پڑھایا، نوکری کے قابل بنایا، اسی بیٹے نے ماں کو بیماری کی حالت میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔
چلو یہاں غربت کو قصور وار ٹھہرا دیتے ہیں۔
ایک کمرے کے مکان میں میاں بیوی، ماں کی موجود گی میں تنگ ہی ہوتے ہوں گے۔ چاہتے تو کوئی حل بھی ڈھونڈ سکتے تھے پر حل تو وہ ڈھونڈتے ہیں جو ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ جن کی نیت ہی حل ڈھونڈنے کی نہ ہو وہ بس حیلے بہانے ہی کیا کرتے ہیں۔
انہیں بہانہ ماں کی بیماری کی صورت میں ملا۔ ماں کی ٹانگ ٹوٹی، اسے ہسپتال لے گئے پر وہاں سے واپس لینے نہیں آئے۔ درخواست کر دی کہ انہیں ہسپتال سے اولڈ ایج سنٹر بھیج دیا جائے۔ پر وہاں کا خرچ کون اٹھائے گا؟ اتنے پیسے تھے نہیں۔ مجبوراً ماں کو گھر لانا پڑا۔ وہ دن بے چاری نے کیسے کاٹے اس کی داستان اس خبر میں موجود ہے، چاہیں تو جا کر پڑھ لیں۔ کچھ عرصے بعد ماں پھر بیمار ہوئی، پھر سے ہسپتال پہنچی، وہاں سے اولڈ ایج سنٹر اور وہاں سے چند ہی دن میں قصہ تمام کروا کے اپنے مستقل گھر یعنی قبر میں پہنچ گئی۔ مرنے سے پہلے اگر مہلت ملی ہوگی تو شاید کلمے کی جگہ شکر الحمداللہ بولا ہو گا۔
اتنی اذیت تو ان بے چاری نے پوری زندگی نہیں سہی ہو گی جتنی اپنے آخری دنوں میں اپنے ہی جگر گوشے کے ہاتھوں اسے سہنی پڑی۔
چلو یہ بھی اچھا ہوا کہ بیٹے اور بہو نے خاتون کو صاف صاف بتا دیا کہ بی بی ہمارے دل اب تنگ پڑ چکے ہیں۔ ہم تمہیں اپنے گھر نہیں رکھ سکتے ورنہ ایسے بھی لوگ ہیں جو رہتے تو بڑے بڑے مکانوں میں ہیں پر دل چھوٹے سے رکھتے ہیں۔ معاشرے کے خوف سے والدین کو گھر سے تو نہیں نکالتے لیکن اپنے گھر میں ہی انہیں تنہائی کا قیدی بنا دیتے ہیں۔ پورا پورا دن گزر جاتا ہے، کوئی ان کے کمرے میں جھانک کر نہیں دیکھتا۔ جہاں استطاعت ہو وہاں ملازم کو ان کی خدمت پر لگا دیا جاتا ہے۔ جہاں استطاعت نہ ہو وہاں اسی بہانے ان بے چاروں کو کچھ گھنٹوں بعد اپنی شکل دکھا دیتے ہیں۔
افسوس کہ ہم ایسے واقعات کو مکافاتِ عمل کے پردے کے پیچھے چھپا دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہر ایک کے ساتھ مکافاتِ عمل کا سلسلہ نہیں ہوا کرتا۔ کچھ لوگ بہت کچھ کرتے ہیں پر ان کی رسی دراز کی دراز ہی رہتی ہے۔ کچھ اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ جیتے ہیں، انہیں قدم قدم پر حساب دینا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انسان کو غیر چاہے جتنا برا بھلا کہیں، لاکھ دکھ پہنچائیں، وہ ہنس کر سہہ جاتا ہے لیکن جب اس کے اپنے اس کا دل دکھانے پر آ جائیں، اس دن اس کی بس ہو جاتی ہے۔ اس دن وہ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ پھر چاہے اسے لاکھ خوشیاں دے دو۔ دنیا کے بہترین ملک میں بہترین سہولیات سے آراستہ گھر دے دو، دنیا کی بہترین نوکری اور بہترین پکوان دے دو، اس کا دل خوش نہیں ہو پاتا۔ وہ اندر ہی اندر گھلتا رہتا ہے۔
انسان کی خوشی اس کے دل میں پنہاں ہوتی ہے اور اس کا دل اس کے اپنوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ نے اپنے اردگرد کئی ایسے لوگ دیکھیں ہوں گے جن کے پاس بظاہر وہ سب کچھ نہیں ہوتا جس کا تعلق ہم خوشی سے جوڑتے ہیں مثلاً ایک اچھا سا گھر، ڈگری، نوکری، مہینے میں ایک دو بار باہر سے کھانا کھانے کی عیاشی، سال میں ایک دو ٹرپ چاہے ملک کے اندر ہوں یا باہر، پھر بھی وہ خوش ہوتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا دل خوش ہوتا ہے۔ ان کے اپنے ان کے پاس ہوتے ہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ان کی زندگی میں ایک تازگی کا احساس برقرار رکھتے ہیں۔
جن کے اپنے ان کے پاس نہ ہوں یا پاس ہو کر بھی دوری پر محسوس ہوتے ہیں، ان کے دل آپ کو ہمیشہ افسردہ ملیں گے۔ وہ لوگ بہت بہادر ہوتے ہیں جو ان حالات میں اپنی خوشی کسی اور چیز میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شائد وقتی طور پر انہیں اس کا فرق نظر بھی آتا ہو لیکن رات کے اندھیرے میں جب وہ تنہا اپنے بستر پر پڑے ہوتے ہیں، اس وقت ان سے ان کے دل کا حال پوچھیں تو آپ کو شائد ان کا دکھ نظر آئے۔
ایسی خبریں خبر سے زیادہ خبردار کرنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ بھی صرف ان پر جو خبردار ہونا چاہتے ہوں ورنہ انسان کے دل سے سخت چیز شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔
اگر آپ کا بھی کوئی اپنا آپ سے دور ہے، چاہے جسمانی طور پر یا قلبی طور پر تو جائیں اس کی خیریت پوچھیں، اس کا دل جوڑیں۔ اپنوں کی اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ جتنی بڑی بات پر ناراض ہوتے ہیں اتنی ہی چھوٹی بات پر مان بھی جاتے ہیں۔ اس لیے گھبرائیں مت کہ کیا کہنا ہے، کیسے کہنا ہے، بس جائیں اور اپنی شکل دکھا دیں، پاس بیٹھ کر ہاتھ پکڑ لیں یا ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے ہی پی لیں، ساتھ دو چار باتیں بھی کر لیں، ایک آدھ لطیفہ سنا دیں۔ وہ فوراً جی اٹھیں گے۔
بس یاد رکھیں یہ ایک دن نہیں کرنا بلکہ ہر روز کرنا ہے۔