موجودہ جمہوریہ ’ناکام‘ اسی لیے ہے کہ اس میں غیرجمہوری سیاسی جماعتیں جمہوریت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔
دو سو کے قریب خاندان ہیں جو پاکستان کے 154 اضلاع پر قابض ہیں۔ ہر پارٹی کا ایک خاندان مالک ہے اور یہ مالکان ہر الیکشن میں سیاسی انجینرز کی حمایت اور ضمانت سے ان دو سو خاندانوں کے ساتھ اشتراکی معاہدہ کرتے ہیں۔
نظریاتی سیاسی پارٹیاں چند ہی ہیں لیکن یہ تمام کی تمام لسانی اور مذہبی نظریات پر قائم ہیں جو اب تک اکثریتی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان لسانی اور مذہبی جماعتوں میں کسی حد تک جمہوری روایات زیادہ گہری ہیں اور ان کی پارٹی تنظیم بھی جمہوری روایات کا اظہار کرتی ہے۔ مگر ان کا پیغام صرف ایک محدود طبقے کو پسند آتا ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی کردار بھی محدود ہے۔
عمران خان کے ماضی میں قریب ہونے کے ناطے میں کہہ سکتا ہو کہ ان میں کبھی یہ صلاحیت نہ تھی کہ وہ ایک جمہوری اور نظریاتی پارٹی بنا سکیں۔ مگر اصل ناکامی ان کے اردگرد موجود لوگوں کی ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی، سیف اللہ نیازی، اسد عمر، اعجاز چوہدری، اسد قیصر، مراد سعید، عمران اسماعیل، علی زیدی اور فردوس شمیم یہ وہ لوگ ہیں جو پارٹی کے اہم عہدوں پر رہے لیکن ایک اچھی اور فعال تنظیم کی بنیاد نہ رکھ سکے۔
بلآخر سیاسی انجینرز کے ساتھ مل کر لوٹوں کو پارٹی میں شامل کرنے کا عمل شروع کیا گیا جس کا اہم کردار جہانگیر ترین تھے۔ ہم جیسے ہزاروں لوگ پی ٹی آئی کا حصہ بنے اور اسے ادارہ بنانے کی کوشش کی لیکن ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ جہانگیر ترین نہیں بلکہ وہ تمام لوگ تھے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا۔ جب عمران خان نے لوٹوں کی بھرتی شروع کی تو ہم نے اس سے بھی اختلاف کیا اور اسے پی ٹی آئی ایل یعنی لوٹے قرار دیا۔
ہماری پارٹی کے اندر تحریک کے جواب میں عمران خان نے اندھے ماننے والوں سے وعدہ کیا کہ وہ ان تمام لوٹوں کو کنٹرول کریں گے۔ پچھلے تین سال میں یہ واضع ہے کہ لوٹے اور مافیاز اس پارٹی اور حکومت کو بظاہر کنٹرول کرتے ہیں۔ اس پیغام کے آخر میں ہم نے پارٹی ممبران کو 2018 میں جو پیغامات بھیجے اس کا ایک خاکہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
جہانگیر ترین ایک امیر آدمی ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ان کے کئی چینی کے کارخانے ہیں اس لیے اس علاقے کے زمیندار جو سیاست دان بھی ہیں ان کے پرانے واقف کار ہیں۔ پیسہ ہی ان کا مبینہ نظریہ ہے اور پیسہ ہی سیاسی اوزار بھی۔ سیاسی سمجھ بوجھ ان میں ناپید ہے لیکن لوٹوں کی تجارت انہیں خوب آتی ہے خاص طور پر جب سیاسی انجینرز کی حمایت بھی حاصل ہو۔
یہ اپنے فیصلے بھی خود نہیں کرتے بلکہ اشاروں پر چلتے ہیں۔ اشارہ ہوا تو پی ٹی آئی میں چلے آئے اور میلہ مویشیاں لگا کر پٹکے ڈال کر لوٹوں کو بھرتی کرتے رہے۔ اب اشارہ ہوا ہے تو فارورڈ بلاک بنا ہے تاکہ اگلے سیاسی انجینرنگ میں کام آئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس تمام عمل میں پیسے خوب بنا۔ ایک اندازے کے مطابق چینی کی قیمت بڑھنے سے چینی بنانے والوں کو تین سو ارب روپے سے زائد کا فائدہ ہوا اور جہانگیر خود کہتے ہیں بازار میں ان کا حصہ 20 فیصد ہے۔ پیسہ ملا مگر عزت نہ مل سکی ہاں خوشامدی کافی جمع ہیں ان کے گرد اور وہی انہی اچھے بھی لگتے ہیں۔ سیاسی انجینرز کے پاس جہانگیر جیسے کئی آلہ کار ہیں اور ساری جمہوریہ انہی کے قبضے میں ہے۔
مسلم لیگ ن کے اہم رہنما بھی قوم کو بتا رہے ہیں کہ جنہوں نے ووٹ کی عزت کو پامال کیا ان سے تو ان کی کوئی لڑائی ہی نہیں تھی۔ بلکہ ایک صاحب محمد زبیر جو میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان ہیں قوم کو بتا رہے ہیں مقتدرہ سے صلح ہو چکی ہے۔
وہ بیچارے جو ووٹ کو عزت دو کے لیے جیلیں اور ڈنڈے کھا رہے تھے اب ان کا کیا ہوگا؟ میں میاں نواز شریف کو ایک اہم اور کہنہ مشق سیاست دان سمجھتا ہوں۔ شہباز شریف ایک ٹیکنوکریٹ ہیں اور سیاست سے ان کا کچھ زیادہ لینا دینا نہیں ہے۔ سیاست دان نواز شریف اور ٹیکنوکریٹ شہباز شریف کی ٹیم اچھی رہی مگر جب شہباز سیاست دان بننے کی کوشش کریں گے تو پارٹی کا بہت نقصان ہوگا۔
اب میاں نواز شریف کے لیے فیصلے کا وقت ہے ماضی کی غلطیاں دھرانی ہیں یا اپنی پارٹی اور اس قوم کو ایک صحیح سمت میں لے جانا ہے۔
صحیح راستہ وہی ہے جو ہم بتا چکے ہیں۔ اس مسترد جمہوریہ کی جگہ ایک عوامی جمہوریہ کا قیام۔ اس مقصد کے لیے گول میز کانفرنس میں قومی سیاسی مذاکرات کا آغاز۔ کسی دور رس اصلاحات کے بغیر الیکشن اس ملک کو آگے کی بجائے پیچھے لے جائے گا اور سیاسی انتشار اپنی انتہا کو پہنچے گا۔ آزمائش شرط ہے۔
ملاحظہ فرمائیں ہم نے پی ٹی آئی کو 2018 میں کیا پیغامات بھیجے اور آج وہی لوگ فارورڈ بلاک بنا کر خان صاحب کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔