جون کے دوران خلیجی ممالک میں گرمی اپنے عروج پر ہوتی ہے اور درجہ حرارت شام کے اوقات اکثر 40 درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
ایسے میں ہوا میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے اور جیسے ہی سورج غروب ہوتا ہے دن بھر کی تپتی دھوپ میں سمندر سے بننے والے آبی بخارات اوس بن کر ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور زمین پر ان کی نمی واضح محسوس کی جا سکتی ہے۔
کرونا کیسز سامنے آنے کے بعد ملتوی ہونے والے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن کے بقیہ میچوں کے لیے ابوظہبی کا انتخاب کیا گیا ہے، جو یکم جون سے شروع ہوں گے۔
لیگ کو پاکستان سے ابو ظہبی منتقل کرنے کا جواز یہ ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں وہاں کرونا کیسز کم ہیں اور وہاں بائیو سکیور ببل نافذ کرنا آسان ہے۔
اس سے پہلے پاکستان میں بائیو سکیور ببل ناکام ہونے کے بعد کرونا کیسز سامنے آنے پر لیگ کو روکنا پڑ گیا تھا۔
پاکستان میں قانون کی عمل داری میں ناکامی کے تناظر میں یہ فیصلہ بڑی حد تک دانش مندی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل میچوں کے دوران شدید گرمی سے بچنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جس سے کھلاڑی بیمار نہ ہو جائیں، جیسے کہ تین دفعہ پانی کے وقفے، آئس بیگز اور گردن کے کوورز تاکہ کھلاڑی تپش کو ٹھنڈک سے روک سکیں۔
اگرچہ کھیل کے دوران پسینہ آنے سے جسم کی گرمی زائل ہوتی ہے لیکن جسم میں نمی کی مقدار مناسب ہونی چاہیے تاکہ ڈی ہائیڈریشن نہ ہوجائے۔ اسی لیے کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ پانی کا استعمال کرنا ہوگا۔
ویسے بھی پاکستانی کھلاڑی شدید گرمی میں کرکٹ کے عادی ہیں اس لیے ان کو شاید کم مسائل ہوں لیکن غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے یہ ایک امتحان ہوگا۔
امارات میں سب سے بڑا مسئلہ اوس ہو گی، جس کے باعث گھاس گیلی ہوجاتی ہے اور گیند جب گھاس سے ٹکراتی ہے تو گھاس پر موجود آبی بخارات گیند کی بیرونی سطح پر منتقل ہوجاتے ہیں۔
چمڑے سے بنی ہوئی سطح میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، جس سے پانی گیند کے اندر تک پہنچ جاتا ہے اور خشک کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی بولر کو گیلی گیند سے بولنگ کرنا پسند نہیں کیونکہ نمی گیند کی سلائی کو نرم کردیتی ہے۔
ایسے میں گیند میں سوئنگ کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور بولر کے ہاتھ میں گیند صابن کی ٹکیہ کی مانند ہوتی ہے جو پھینکتے وقت جلدی نکل جاتی ہے یا پھرانگلیوں میں پھنس جاتی ہے لہٰذا بولرز اپنی رفتار بہت کم کردیتے ہیں۔
بولرز کو دوسرا مسئلہ کریز پر اچھلنے کا ہوتا ہے۔ جب فاسٹ بولر ایک قدم پر اچھل کر گیند پھینکتے ہیں تو نمی کی وجہ سے اگلا قدم پھسلنے کا ڈر ہوتا ہے جس سے بولر دماغی طور پر کمزور ہوجاتا ہے۔
گیلی گیند سے کیسے بولنگ ہو؟
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم میں شامل جدید کرکٹ کے نامور بولر ڈیل سٹین کہتے ہیں ’میرے لیے گیلی گیند سے بولنگ ہمیشہ سے ناپسندیدہ رہی ہے کیونکہ گیند انگلیوں کی گرفت میں آتی ہی نہیں۔‘
’مجھے یارکر پسند ہے جو عام حالات میں سب سے مشکل ہے اور گیند گیلی ہونے پر اسے کرانا بہت مشکل ہوجاتا ہے لیکن میں پھر بھی یارکر کو ہی گیلی گیند سے بہتر سمجھتا ہوں اس کے لیے سب سے ضروری آپ کو دماغی طور پر مضبوط ہونا چاہیے۔‘
سٹین جون میں امارات میں کھیلنے سے بالکل پریشان نہیں البتہ اوس سے ضرور پریشان ہیں۔
سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم کے خیال میں گیلی گیند اتنا بڑا مسئلہ نہیں اگر آپ اپنی لائن اور لینتھ پر قابو رکھتے ہیں کیونکہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ورائٹی ہی کامیابی ہے اور پروفیشنل کرکٹ میں ایسے بہانے بچگانہ ہیں۔
کون سے بولر خطرناک ہوں گے؟
ابوظہبی کی پچ پر کسی بھی فاسٹ بولر کا کامیاب ہونا مشکل ہے لیکن غیر روایتی بولنگ کرنے والے بولر وہاں موثر ثابت ہوسکتے ہیں جو اپنی رفتار میں کمی بیشی لاتے رہتے ہیں۔
گیلی گیند سے سپنرز کو مشکل پیش آئے گی کیونکہ نمی کے باعث گیند پر گرفت نہیں رہتی، جس سے انگلیوں کی مدد سے گیند کو ٹرن کرنا ممکن نہیں رہتا اور بلے بازوں کے لیے کھیلنا آسان ہوجاتا ہے۔
ایسی صورتحال میں شاہد آفریدی جیسے بولر سپن کرنے کی بجائے فلپر کا استعمال کرتے ہیں یعنی سیدھی اور تیز۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
البتہ بائیں ہاتھ کے بولرز کو زیادہ مشکلات نہیں پیش آتی کیونکہ ان کا ہدف ہوا میں بولنگ کرنا ہوتا ہے اس لیے وہ صرف دو انگلیوں سے بھی بولنگ کرلیتے ہیں۔
لیگ میں شامل تمام ٹیمیں یقینی طور پر ریگولر سپنرز کے بغیر کھیلیں گی اور سپن بولنگ کے لیے پارٹ ٹائم پر ہی گزارہ کریں گی۔
ابو ظہبی کی سخت گرمی میں پی ایس ایل کے بقیہ میچز میں شاید کراچی جیسا جوش نظر نہ آئے اور اس صورت میں جبکہ بہت سے کھلاڑی دستیاب بھی نہیں تو شائقین کو صرف جان چھڑانے والی ہی کرکٹ نظر آئے گی۔
لیگ کے ابتدائی میچز کے دوران دنیا بھر میں کرکٹ بند تھی لیکن اب جب میچ ہو رہے ہوں گے تو انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز میں کرکٹ شروع ہوچکی ہوگی جبکہ نامور کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں غیر ملکی شائقین کی دلچسپی بھی کم ہوگی۔
پی ایس ایل کا چھٹا ایڈیشن پی سی بی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے جس نے بہت سارے نشیب وفراز دیکھے ہیں اور شاید آگے بھی دیکھنا پڑ جائیں کیونکہ پی سی بی میں کوئی پلان بی نہیں ہوتا اور روزانہ کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اسی غلطی نے لیگ کو مارچ میں ملتوی کرا دیا تھا۔
نوٹ: یہ تجزیہ لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔