1950 کی دہائی کی ایک رات تقریبا تین بجے نوجوان مچھیرے محمد اکبر اور اس کے والد نے سمندر میں اپنی کشتی ڈالی ہی تھی کہ ایک زوردار دھماکے کے بعد فضا روشن ہو گئی۔
دونوں نے فورا کشتی نکال کر ساحل پر لگا دی اور قریب ہی واقع اپنے گھر کو دوڑے۔ یہ عمان کی ساحلی بستی 'گوادر' میں عید کا دن تھا اور دھماکہ اس کا سرکاری اعلان!
’چند سال بعد جب 1958ء میں گوادر پاکستان کا حصہ بنا تو عید کے اعلان کا یہ طریقہ بند ہوا۔ مگر ہمارے یہاں آج بھی گوادر پر عرب حکمرانی کے دنوں کی کافی رسومات رائج ہیں،‘ یہ بات گوادر کے شاہی بازار میں تاریخی کریموک ہوٹل پر بیٹھے محمد اکبر نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے عرب نیوز کو بتائی۔
اکبر کی عمر اب 78 سال ہوچکی ہے تاہم ان کو اپنا بچپن کل کی طرح یاد ہے۔
کریموک دراصل خود عمانی دور کی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ یہ کبھی بیکری ہوا کرتی ہے جس کے عرب مالک عمر مسقطی نے یہاں سے عمان منتقل ہوتے وقت اسے ایک مقامی شخص کے حوالے کیا، جس نے یہاں چائے کا ہوٹل کھول لیا۔
ثقافتی لحاظ سے متنوع گوادر مشہور ہوٹل اور ریزورٹ چلانے والے ہاشو گروپ کے چیئرمین صدرالدین ہاشوانی کا آبائی علاقہ ہے اور آج بھی یہاں کافی تعداد میں خوجہ اسماعیلی برادری کے لوگ آباد ہیں۔
ایک مقامی نوجوان نور محسن نے بتایا کہ گوادر کے شاہی بازار کے قریب ایک جماعت خانہ اور ایک ہندو مندر بھی ہے۔
وہ کہتے ہیں ’یہ اس بات کا عکاس ہے کہ گوادر عرب حکمرانی کے دور میں ایک متنوع شہر تھا اور یہ آج بھی ایسا ہی ہے‘۔
گوادر تقریباً12 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی پر واقع ہے جو بحریہ عرب کی پہاڑی کوہ باطل کو پاکستان کے باقی ساحل سے ملاتی ہے۔
اس پٹی کے دونوں طرف پانی ہے۔ ایک طرف جس کو مقامی طور دمی زر کہا جاتا ہے سمندر کے لیے کشتیاں روانہ ہوتی ہیں جبکہ پٹی کے مغربی طرف واقع پدی زر میں کشتی بنانے کا کام کیا جاتا ہے۔
گوادر چین اور پاکستان کے ’چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور‘ یا ’سی پیک‘ کا مرکز اور محور ہے۔
یہاں پر چین کی بھاری سرمایہ کاری کے علاوہ سعودی عرب نے بھی فروری میں 10 ارب ڈالرز کی ریفائنری اور پیٹروکیمکل کمپلیکس کے قیام کا اعلان کیا ہے۔
گوادر کو اب پاکستان کا دبئی یا شنژین بنانے کے دعویٰ یا وعدے کیے جارہے ہیں لیکن یہ کبھی مچھیروں کا ایک چھوٹا ساحلی گاؤں ہوا کرتا تھا ۔
1783 میں جب عمان کے موجودہ حکمران سلطان قابوس کے دادا سلطان تیمور نے شکست کے بعد بلوچستان کی ریاست قلات میں پناہ لی تھی تو اُس وقت کے خان آف قلات میر نصیر خان بلوچ نے ان کو گوادر کی بستی عطا کی تاکہ وہ یہاں اپنا گزر بسر کر سکیں۔
بعد میں جب سلطان تیمورنے مسقط کو دوبارہ فتح کیا تو انہوں نے گوادر کے انتظام کے لیے والی مقرر کیا اور یہاں اپنی حکمرانی جاری رکھی۔
8 ستمبر1958 کو پاکستان نے گوادر کو عمان سے ساڑھے پانچ ارب روپے میں خرید لیا جس کے ساتھ ہی گوادر کے عرب دور کا سورج غروب ہوگیا۔
اگرچہ گوادر بعد میں مچھیروں کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ایک اہم بندر گاہ میں تبدیل ہوگیا لیکن یہاں کے باسیوں کے ذہنوں سے عرب دور کی سنہروں یادیں کبھی بھی مٹ نہ سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماہی گیر محمد اکبر کہتے ہیں ’بلدیہ کے پرانے دفتر کے سامنے پڑی توپیں اب عید کی آمد کی نوید نہیں سناتی لیکن ہم آج بھی افطار عربوں کے طریقے سے کرتے ہیں‘۔
اکبر کہتے ہیں کہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کے برعکس گوادر کے لوگ افطار میں کافی تعداد میں کھجور کھاتے اور اس کے ساتھ لسی پیتے ہیں جبکہ کھانا تراویح کے بعد کھاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سکون‘ ایک عربی ڈش ہے جس کو خاص طور پر ماہ رمضان میں افطار سے قبل پڑوسیوں کے گھر بھیجا جاتا ہے۔ ناصر رحیم کے والد رحیم بخش سہرابی ان چند بااثر شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے گوادر کے پاکستان سے الحاق کے لیے مہم چلائی۔
وہ سکون بنانے کی ترکیت بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کجھوروں کو پانی میں نرم کرنے کے بعد اس میں آٹا ملایا جاتا ہے۔ خواتین دوپہر ہوتے ہی اسے بنانا شروع کر دیتی ہیں اور افطار سے پہلےاس کو تقسیم کیا جاتا ہے۔
80 سالہ سکینہ بی بی نے عرب نیوز کو بتایا کہ گوادر کی عورتیں آج تک عود کی خوشبوئیں استعمال کرتی ہیں۔
وہ اس کے استعمال کا طریقہ بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ عود کو دہکتے ہوئے انگاروں پر پھینک دیا جاتا ہے اور اس کے دھوئیں کو بالوں اور کپڑوں میں جذب کرلیا جاتا ہے جو کپڑوں اور جسم کو کافی دیر تک قائم رہنے والی بہترین خوشبو سے معطر کردیتی ہے۔
سکینہ بی بی کہتی ہیں آج بھی جب عمان یا دیگر خلیجی ممالک میں کوئی تحفہ لانے کا کہتا ہے تو ہم عود لانے کی فرمائش کرتے ہیں۔
سکینہ اب بوڑھی ہوچکی ہیں تاہم انہیں آج بھی اپنی عرب سہیلیوں شادی اور کعنان کے نام یاد ہیں۔
وہ کہتی ہے گوادر اور مکران میں آج بھی عورتیں خوشی کے موقع پر ایسے نعرے لگاتی ہیں جیسا عرب میں خواتین کرتی ہیں، وہ اسے ’لولو‘ کہتی ہیں۔
عرب دور کے رواج صرف کھانے اور خوشبوں تک محدود نہیں۔ گوادر میں لوگ اب تک 'لاوا 'نامی عرب اور افریقی رقص کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق ایک شخص روایتی عرب ڈھول کو ایک مخصوص دھن پر بجاتا ہے جبکہ باقی اس کے ارد گرد ناچتے ہیں۔
ناصر رحیم کہتے ہیں کہ عرب دنیا سے گوادر کا تعلق صرف چند رسموں تک محدود نہیں۔ گوادر میں ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ دو ہزار لوگوں کے پاس عمان اور پاکستان کی دہری شہریت ہے۔
عمانی فوج میں مکران کے ساحلی اضلاع کے کافی لوگ بھرتی کیے گئے ہیں جبکہ بہت سارے بحرین کی پولیس کا حصہ ہیں۔
اس کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ عمان، قطر، متحدہ عرب عمارات اور بحرین میں کام کرکے زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔
بہت سارے جو وہاں مستقل طور پر آباد ہیں یہاں موجود رشتہ داروں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔
ناصر کہتے ہیں کہ ان کا بھائی عمان میں کام کرتا ہے جبکہ ان کی بہن عمانی شہری ہے۔
وہ کہتے ہیں یہ گوادر میں ہر دوسرے گھر کی کہانی ہے اور یہ ایسا تعلق ہے جو گوادر کے باسیوں کے عرب دنیا سے رشتے کو مضبوط تر کرتا ہے۔
محمد اکبر کے مطابق عربوں اور گوادر کے باسیوں میں شادی بیاہ کی کافی رسومات مشترک ہیں جبکہ بہت سارے لوگوں نے آپس میں شادیاں بھی کی ہیں۔
وہ کہتے ہیں آج بھی گوادر میں شادی بیاہ، عید، جمعے کے دن جیسے خاص موقعوں پر قندورا زیب تن کیا جاتا ہے۔
ایک اور ماہی گیر داد کریم نے عرب نیوز کو بتایا کہ گوادر میں کافی لوگوں نے اپنے اور اپنے اجداد کے پرانے عمانی پاسپورٹ محفوظ کر رکھے ہیں۔
داد کریم کے پاس ان کے والد کا 1900 کا عمانی پاسپورٹ محفوظ ہے۔
وہ کہتے ہیں یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستانی حکمرانوں پر تنقید برداشت کرسکتے ہیں لیکن عمانیوں کے بارے میں ایک منفی بات سننا گوارا نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے ساحلی اضلاع میں لگے کجھور کے درخت بھی عربوں کی دین ہیں جن کا بیج وہ مختلف عرب ممالک بشمول سعودی عرب سے یہاں تبلیغ کی غرض سے آتے ہوئے لائے تھے۔
گوادر کے تین قلعے اور شاہی بازار آج بھی گوادر کے لوگوں کو عمانی دور کی یاد دلاتے ہیں۔
انہی میں سے ایک قلعے کو سلطان قابوس کے حکم پر سلطنت عمان کی وزارت برائے ثقافت اور ورثہ نے 2001 میں بحال کیا۔
اس کا باقاعدہ افتتاح پاکستان کے سابق فوجی حکمران صدر پرویز مشرف نے 20 مارچ 2007 کو کیا۔
داد کریم کہتے ہیں کہ جب کوئی بیرونی قوت کسی علاقے پر حکومت کرتی ہے تو مقامی آبادی کے دلوں میں ان کے لیے نفرت پیدا ہو ہی جاتی ہے لیکن ہمارا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ یہاں پر محبت ہے اور صرف محبت۔