ایران اور اقوام متحدہ کی نگران جوہری ایجنسی ایران کی جوہری تنصیبات میں نصب کیمروں کی فعالیت کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کے معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے کیے جانے والے مذاکرات کو مزید وقت مل گیا ہے۔
ان مذاکرات کے حوالے سے ایران اور امریکہ کے درمیان ہر گزرتے دن کے ساتھ وقت کم ہوتا جا رہا ہے جب کہ ایران جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنے موقف پر قائم ہے۔ ایران پہلے ہی سال 2015 کے معاہدے میں طے کردہ شرح سے زیادہ یورنیم افزودہ کر رہا ہے۔
سوموار کو ویانا میں بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر رفائل ماریانو گروسی کا صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ اس راہ میں حائل مشکلات سے آگاہ ہیں کیونکہ ان کی ایجنسی ان کیمروں سے حاصل کردہ تصاویر تک رسائی نہیں رکھتی۔ انہوں نے یہ بیان ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالحی سے مذاکرات کے بعد دیا ہے۔
رفائل گروسی کا کہنا تھا کہ 'میں اس بات پر زور دینا چاہوں گا کہ حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ یہ ایک ہنگامی اقدام کے طور پر کیا گیا ہے تاکہ ہم نگرانی کے عمل کو جاری رکھ سکیں۔'
بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی میں ایران کے نمائندے کاظم غریب آبادی نے بھی ٹوئٹر پر اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم مذاکرات میں شامل ممالک کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس سنہری موقعے کا فائدہ اٹھائیں جو ایران نے اچھی نیت سے انہیں دیا ہے۔ تاکہ وہ ان پابندیوں کو ختم کر سکیں اور قابل تصدیق اقدامات کر سکیں۔'
آئی اے ای اے نے فروری میں ایران سے تین ماہ تک نگرانی کی تصاویر کو اپنے پاس رکھنے کا معاہدہ کیا تھا۔ ایران نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس مدت میں معاہدے پر عمل نہیں ہوتا تو ایران ان تصاویر کو ضائع کر دے گا۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سال 2015 کے جوہری معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کے بعد ایران نے اس معاہدے کی شقوں کی مرحلہ وار خلاف ورزی شروع کی تھی۔ ویانا میں ایران اور امریکہ کی اس معاہدے میں واپسی کے لیے مذاکرات جاری ہیں جبکہ بین الااقوامی توانائی ایجنسی کے لیے روسی نمائندے میخائل اولیانوف نے سوموار کو کیے جانے والے معاہدے کو 'قابل تعریف' قرار دیا ہے۔