سائنس فکشن، دیومالائی کردار، خیالی دنیا کے ساتھ حقیقی ماحول اور جادوگر کی جادوگری، ان سب کا حسین امتزاج اگر ’عینک والا جن‘ کو کہا جائے تو بلاشبہ غلط نہ ہوگا۔
ایک ایسا ڈراما سیریل جو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کا بھی ہر دلعزیز بن گیا۔
جس کے کردار چاہے نسطور ہو، زکوٹا جن ہو، سامری جادوگر، چارلی ماموں یا بل بتوڑی، آج بھی مقبولیت اور شہرت میں کسی سے کم نہیں۔
ان کے ادا کیے ہوئے تکیہ کلام تو زبان زد عام ہوئے اور ایسے ہوئے کہ آج تک ان کو ذہنوں سے کوئی کھرچ نہیں پایا۔
ہم میں سے کئی جو، اب جوانی کی دہلیز کو پار کرچکے ہیں، وہ ’عینک والا جن‘ کی طلسماتی کشش سے خود کو محفوظ نہ رکھ پائے ہیں۔
بچوں کے ہر دلعزیز ’عینک والا جن‘ کی 25 اپریل، 1993 کو جب پہلی قسط نشر ہوئی تو اس قدر شہرت اور مقبولیت ملی کہ یہ سلسلہ اگلے تین سال تک کامیابی و کامرانی سے جاری رہا۔
اس عرصے میں کہیں بھی ڈرامے کی کہانی میں جھول آیا اور نا ہی پسندیدگی کے گراف میں کمی۔
بچے تو پورا ہفتے ’عینک والا جن‘ کی اگلی قسط کے لیے دن گن رہے ہوتے کیونکہ گھر بیٹھے جہاں انہیں جادو کے کمالات دیکھنے کو ملتے، وہیں وہ کہانیاں جو انہیں دادی اور نانی اماں سے سن کر تصوراتی دنیا میں لے جاتیں اب ان کا چھوٹی سکرین پر نظارہ ملتا۔
چلبلے سے چٹ پٹے کردار ناظرین کے لیے مسکراہٹوں کا پیغام لاتے۔ یہی نہیں سائنس فکشن سے بھرے مناظربھی اپنی مثال آپ رہتے۔
جس پر اُس دور میں اس اعتبار سے فخر کیا جاتا جب ٹیلی ویژن خصوصی بصری اثرات (سپیشل ایفکٹس) میں اس قدر مہارت نہیں رکھتا تھا۔
شاہکار کلاسک ڈراما سیریل ’عینک والا جن‘ کے غیر معمولی صلاحیتوں کے پروڈیوسر حفیظ طاہر تھے، جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
وہ شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقی کے کئی پروگرام پروڈیوس کرچکے تھے۔ ان کے من میں یہ خواہش مچلی کہ کیوں ناں ان کے پاس جن ہو اور دنیا کے کئی مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہوجائیں۔
یہی آرزو انہیں ’عینک والا جن‘ کے خیال تک لے آئی۔ ایک روز شیو کرتے ہوئے اُن کے ذہن میں جن کے گرد گھومتی کہانی پر ڈراما بنانے کا آئیڈیا آیا۔
سامنے ہی اُن کی عینک تھی، تو سمجھیں نام ’عینک والا جن‘ بھی پلک جھپکتے میں مل گیا، جسے عملی شکل دینے کے لیے انہوں نے باقاعدہ کہانی لکھی۔
اس کہانی کے مطابق جنات کی دنیا کے جن کی بینائی کمزور ہوتی ہے، تو اسے علاج کرانے کے لیے دنیا کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں اس کی ملاقات کم سن عمران سے ہوتی ہے، جو اسے گھر لے آتا ہے اور یہیں سے کہانی میں کئی نئے انوکھے ڈرامائی موڑ آتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حفیظ طاہر کے اس آئیڈیا کو پہلے لاہور مرکز اور پھر پاکستانی ٹیلی ویژن کے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر نے بھی سراہا۔ جبھی اس منصوبے پر باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔
کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کے لیے یونس بٹ سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے معذرت کرلی۔ پھر ایسا ہی کچھ اصغر ندیم سید اور یونس جاوید نے بھی کیا۔
ایسا لگا کہ یہ بیل مونڈھے چڑھتے نظر نہیں آرہی لیکن پھر بچوں کے لیے متعدد کہانیاں لکھنے والے اے حمید تک رسائی کی گئی تو انہوں نے خوشی خوشی اس ڈرامے کو لکھنے کی رضا مندی بھری۔
ابتدا میں ’ نسطور جن‘ کے لیے آغا طالش کے صاحب زادے احسن طالش کو پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
شہزاد قیصر جنہوں نے ’نسطور جن‘ کا کردار ادا کیا، وہ درحقیقت گلوکار بننے کی تمنا لے کر حفیظ طاہر کے پاس آئے تھے۔
مگر ان سے پہلی ہی ملاقات میں جب حفیظ طاہر نے ’جن‘ کی طرح فلک شگاف قہقہہ لگانے کی فرمائش کی تو انہوں نے بھی ایسا جان دار قہقہہ لگایا کہ اُسی وقت وہ اس کردار کے لیے منتخب ہوگئے۔
یوں شہزاد قیصر گلوکار بننے کی بجائے ’جن‘ بن گئے۔ سحرش خان جو اُس زمانے میں کسی نہ کسی ڈرامے میں ہیروئن کا کردار ادا کرتیں، انہیں کہانی اس قدر پسند آئی کہ ان کو دو بچوں کی والدہ کے کردار میں اپنی خدمات انجام دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔
ڈرامے میں ان کے دو پیارے پیارے بچوں کے کردار اجلا ل عاصم بخاری اور معطر عاصم بخاری نے ادا کیے، جو حقیقی زندگی میں بھی بہن بھائی ہیں اور ٹی وی کے سنیئر فنکار عاصم بخاری کے بچے بھی۔
حفیظ طاہر کا کہنا ہے کہ چونکہ ڈرامے کی کہانی کے مطابق خصوصی بصری اثرات (سپیشل ایفکٹس) لازمی تھے اور 90 کی دہائی میں پی ٹی وی کمپیوٹر گرافکس کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے خاصا دور تھا۔
اسی لیے محدود وسائل میں رہتے ہوئے ’کروما تکنیک‘ کا استعمال کرتے ہوئے خصوصی اثرات کے ساتھ مختلف مناظر عکس بند کیے گئے۔
اس سلسلے میں وہ اپنے کیمرا مین کو بھی شاباشی دیتے ہیں، جنہوں نے ان مناظر کی عکس بندی کے دوران اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کیا۔
’عینک والا جن‘ درحقیقت ایک سہ ماہی کے لیے شروع ہوا تھا، اس کی پہلی ہی قسط کے نشر ہونے کے بعد حفیظ طاہر اور ان کی اس تخلیق کی ہرجانب واہ واہ ہونے لگی۔
پروڈیوسر کا کہنا تھا کہ ابتدا سے ہی انہیں سو فی صد یقین تھا کہ ’عینک والا جن‘ شہرت پائے گا لیکن مقبولیت کی ساری سرحدیں پار کرجائے گا اس کا اندازہ نہیں تھا۔
پہلی سہ ماہی میں مقبولیت کے تمام ریکارڈز توڑنے کے بعد اسے اگلی سہ ماہی میں بھی برقرار رکھا گیا اور پھر یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا۔ اس عرصے میں کم و بیش 151اقساط نشر ہوئیں۔
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ’عینک والا جن‘ بہترین ٹیم ورک کا نمونہ رہا۔ بہت سارے تکیہ کلام خود فنکار اپنے لیے بناتے، ہر فنکار بڑھ چڑھ کر اپنے کردار میں بہتری کے لیے کوشاں رہتا۔
اس سلسلے میں نت نئے خیالات پیش کیے جاتے، جن پر باقاعدہ عمل بھی کیا جاتا۔ پورا ہفتے ریکارڈنگ ہوتی اور پھر فائنل قسط تیار کی جاتی۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں فریحہ پرویز، حمیرا ارشد اور شبنم مجید نے ’عینک والا جن‘ سے اپنے کیریئر کو بطور اداکار کے شروع کیا۔
کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ کم سنی میں بلاول بھٹو زردای بھی اس ڈرامے کو پسند کرتے تھے اور ان کی فرمائش پر بھی اس ڈرامے کی اقساط میں اضافہ کیا گیا۔
حفیظ طاہر کے مطابق یہ خبر ان تک ضرور آئی تھی، لیکن اس کی تردید یا تصدیق نہ ہوسکی۔
جب اس شہرہ آفاق ڈرامے کی آخری قسط کی ریکارڈنگ کی جارہی تھی، تو ہر آنکھ اشکبار تھی۔ انتہائی غم زدہ ماحول میں عکس بندی مکمل کی گئی۔
ہر فنکار کا ایک دوسرے سے تعلق جہاں بنا وہیں ناظرین کے دلوں میں بھی یہ گھر کر گئے تھے۔
حفیظ طاہر کو اس بات کا شکوہ ہے کہ اس ڈرامے کو بند نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بالخصوص ایسے میں جب کمپیوٹر گرافکس میں پاکستان میں جدت آئی تو ’عینک والا جن‘ کو نئے مصنف اور نئے ہدایت کار کے ساتھ ہی صحیح چھوٹی سکرین پر جاری رکھا جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’عینک والا جن‘ درحقیقت کلاسک ہے، اسی لیے اس کے ری میک کے بارے میں حفیظ طاہر کا کوئی ارادہ نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ شاہکار تخلیقات صرف ایک بار ہی بنتی ہیں۔ دوبارہ بنانے سے اصل کا بھی تاثر زائل ہوجاتا ہے۔
گو کہ بعد میں 2006 میں ’عینک والا جن‘ کے دوسرے سیزن میں 90 کے قریب اقساط نشر ہوئیں۔جنہوں نے عوامی پذیرائی کی ایک بار پھر سند حاصل کی۔
بچوں کے مقبول ترین ’عینک والا جن‘ کی اس ٹیم کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ اس نے برطانوی شہزادی ڈیانا کی پاکستان آمد کے موقعے پر اپنی پرفارمنس پیش کی۔
یہ تقریب شوکت خانم میموریل ہسپتال کے فنڈز ریزنگ کے لیے سجائی گئی تھی، جس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔
اسی طرح 2005میں آئے بد ترین زلزلے کے بعد ’عینک والا جن‘ کی ٹیم نے متاثرہ علاقوں میں جا کر بچوں کے لیے مختلف شوز کا اہتمام کیا۔
یہ بھی بدقسمتی کہی جاسکتی ہے کہ ’عینک والا جن‘ سے شہرت سمیٹنے والے منا لاہوری اور نصرت آرا انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے کوچ کرگئے۔
منالاہوری ’زکوٹا جن‘ بنے تھے جبکہ نصرت آرا نے ’بل بتوڑی‘ کا کردار ادا کیا۔ صرف یہی نہیں اس ڈرامے میں کام کرنے والے بیشتر فنکار بعد میں مالی پریشانیوں سے دوچار ہوئے۔
حفیظ طاہر کے مطابق دراصل شہرت کو صحیح معنوں میں کیش نہیں کرایا گیا۔ اگر یہ فنکار اس مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر اجتماعی کاموں میں حصہ لیتے تو ممکن ہے کہ اس قدر مالی بحران کا شکار نہیں ہوتے۔