وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو بتایا ہے کہ سندھ کے کچے کے علاقے سے ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور آپریشن کے لیے پولیس کو کچھ اہم آلات درکار ہیں وہ سندھ حکومت خرید رہی ہے جن کی خریداری میں وفاقی وزارت داخلہ سے مدد لی جائے گی۔
جمعرات کو وزیراعلیٰ سندھ ہاؤس کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات کے دوران وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ وفاقی حکومت ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے ہر ممکن مدد دینے کو تیار ہے۔
شیخ رشید نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سے کہا کہ امن و امان صوبائی معاملہ ہے، مگر وفاق سے جو مدد چاہیے ہم دیں گے، آپریشن میں پولیس کی مدد کے لیے رینجرز بھی دیں گے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کچے کے علاقے میں پولیس کی بکتربند گاڑی خراب ہونے کے باعث ڈاکوؤں نے حملہ کیا اور میڈیا نے واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
سندھ حکومت کو ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے کے پولیس کے لیے وہ کون سے آلات درکار ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے سندھ کو وفاقی وزارت داخلہ سے مدد کی ضرورت ہے، یہ جاننے کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس رابطہ کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سندھ پولیس کے پاس ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کرنے کے بکتربند گاڑیاں، ہتھیار اور نفری تو موجود ہے بس ایک چیز میں وفاقی وزارت داخلہ سے مدد چاہیے، وہ ہے ان ڈاکوؤں کی موجودگی کا پتہ لگانے والے لوکیٹرز۔
سندھ پولیس کے پاس موبائل فون کی لوکیشن چیک کرنے والی صلاحیت تو ہے۔ مگر جب بھی ڈاکوؤں کے خلاف بڑا آپریشن ہوتا ہے تو وہ موبائل کا استعمال ترک کرکے سیٹیلائیٹ فون استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں جن کی لوکیشن کو ٹریس کرنے کے اجازت وفاقی وزارت داخلہ ہی دیتی ہے۔ اس علاقے میں سیٹلائیٹ فون کو لوکیٹ کرنے والے آلات کے استعمال کی اجازت بھی وفاقی وزارت داخلہ دیتی ہے۔‘
’اس لیے آج وفاقی وزیر داخلہ سے وزیر اعلی سندھ نے درخواست کی ہے کہ سندھ پولیس کو سیٹلائٹ فون کی لوکیشن جاننے والے آلات اور استعمال کی اجازت دی جائے۔‘
واضح رہے کہ اتوار 23 مئی کو ضلع شکارپور کی تحصیل خان پور میں واقع گڑھی تیغو کے نواحی علاقے میں ڈاکوؤں سے مقابلے کے دوران دو پولیس اہلکار اور پولیس کے فوٹوگرافر سمیت 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پولیس کے مطابق ڈاکوؤں نے سندھ کے مختلف علاقوں سے 12 افراد کو اغوا کرکے گڑھی تیغو میں یرغمال بنا رکھے تھے، جن کی بازیابی اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس آپریشن کیا گیا تھا۔
آپریشن کے دوران چھ مغوی بازیاب اور تین اغوا کاروں کو گرفتار کیا گیا اور پولیس فائرنگ سے آٹھ ڈاکو ہلاک اور 12 زخمی ہوئے۔
ڈاکوؤں نے پولیس پر حملے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی، جس میں ڈاکو پولیس کی بکتربند گاڑی کے اوپر چڑھ کر خوشی میں فائرنگ کرنے کے ساتھ ناچتے دکھائی دیے۔
بعد میں سندھ حکومت نے آپریشن میں ناکامی کے باعث ایس ایس پی شکار پور امیر سعود مگسی اور ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا تھا۔
پولیس افسران کے تبادلے کے بعد آپریشن کے پانچویں روز جمعرات کو ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شکار پور کے صحافی وحید پہلپوٹو کے مطابق گڑھی تیغو کے علاقے میں تاحال پولیس کی بھاری نفری موبائلوں اور بکتربند گاڑویں کے ساتھ علاقے کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وحید پہلپوٹو نے بتایا: ’گڑھی تیغو میں پولیس کی جانب سے غیر اعلانیہ کرفیو لگایا ہوا اور علاقے کا سخت پہرا لگایا ہوا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق پولیس کے گھیراؤ کے باعث کچے میں موجود ڈاکو کسی اور طرف نکل گئے ہیں۔‘
دوسری جانب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بدھ کے روز شکار پور میں ایس ایس پی کے دفتر میں کچے کے علاقے میں امن و امان کے حوالے سے ایک اجلاس کیا۔ وزیراعلی سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا کے مطابق وزیراعلی سندھ نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ شکارپور اور کشمور کے اضلاع کے کچے علاقے میں ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ایک جامع اور بھرپور ’آپریشن کلین اپ‘ شروع کیا جائے۔
سندھ پولیس کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق شکارپور ضلع کے کچے کے علاقے گڑھی ٹیگو اور بچل بھایو ایک لاکھ 49 ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں جہاں نو پولیس سٹیشنوں بشمول نیپر کوٹ، کوٹ شاہو، بچل بھایو، آباد ملانی، جھلی کلواڑی، تجو ڈیرو، جھبیر شیخ، 20 میل اور جمال پور واقع ہیں۔