ایک ایسے ملک میں جہاں کرکٹ کو مذہب کی حد تک پوجا جاتا ہے، مجھ سے فٹبال کو پسند کرنے کی خطا ہوئی۔ فیفا ورلڈ کپ 1998 کے بعد سے ہر سال جب بھی فیفا کی نئی فٹبال ویڈیو گیم آتی تھی تو میں اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کمپیوٹر پر اسے کھیلا کرتا تھا اور تب سے ہی مجھے فٹبال کی لت لگ گئی۔
فیفا کے اندر پاکستان میں موجود بیشتر افراد اُس وقت یا تو مانچسٹر یونائیٹڈ یا پھر آرسنل کی ٹیم سے کھیلتے تھے کیونکہ وہ دونوں ٹیمیں پہلے یا دوسرے نمبر پر آیا کرتی تھی۔ ان دنوں انگلینڈ کے مشہور سٹرائیکر مائیکل اوون کا بول بالا تھا، جنہوں نے اپنے فٹبال کیرئیر کا آغاز لیورپول فٹبال کلب سے کیا تھا۔ اور تب سے ہی میں نے لیورپول کو دیوانہ وار دیکھنا شروع کیا۔
2004 میں گھر میں سیٹلائٹ ٹی وی کی آمد ہوئی تو پھر تو بس میں ہوتا تھا اور لیورپول اور انگلش پریمئیر لیگ۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ پاکستان سے میلوں دور انگلینڈ کے ایک شہر کا فٹبال کلب، جس کا پاکستان سے کوئی لینا دینا بھی نہیں، میری زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ مجھے اپنی شادی کی تاریخ بھی تبدیل کرنا پڑی کیونکہ اُس دن لیورپول کا ایک اہم میچ تھا۔
لوگ مجھ سے آج بھی پوچھتے ہیں کہ ایسا کھیل جسے پاکستان میں نہیں دیکھا جاتا اور جس میں پاکستان کا کوئی کھلاڑی بھی نہیں تو میں اسے کس طرح پاگلوں کی طرح دیکھتا ہوں۔ اس سوال کا جواب خاصہ مشکل ہے مگر سوال پوچھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کھیل کی شاید کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اسی لیے پاکستان میں اکثر لوگ ویرات کوہلی کو پسند کرتے ہیں اور بھارت میں شاہد آفریدی اور شعیب اختر کی واہ واہ ہوتی ہے۔ اسی طرح فٹبال ورلڈ کپ کے دوران بھی ملک بھر میں بڑی سکرینوں پر لوگ اکٹھے ہو کر میچ دیکھتے ہیں۔ کھیل شاید چیز ہی ایسی ہے کہ اس کو پسند کرنے کا جواز دینا شاید مشکل ہے۔ کسی کو کشتی پسند ہے تو کسی کو گولف، لیکن مجھے فٹبال اور فٹبال میں بھی بس لیورپول۔
لیورپول انگلینڈ کا ایک شہر ہے جو لیورپول فٹبال کلب کے علاوہ مشہور زمانہ بینڈ ’دی بیٹلز‘ کے لیے پہچانا جاتا ہے۔ ٹائی ٹینک جہاز نے اپنے سفر کا آغاز بھی لیورپول سے کیا تھا۔
لیورپول فٹبال کلب کا شمار اگرچہ یورپ کے کامیاب ترین کلبوں میں ہوتا ہے مگر گزشتہ 29 سالوں سے لیورپول نے ڈومیسٹک لیگ نہیں جیتی۔ 1990 میں لیورپول نے آخری دفعہ یہ اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ 29 سالوں سے یہ کلب اور اس سے جڑے لوگ اپنے ماضی کی جیتوں کو یاد کرکے اس امید پر قائم ہیں کہ ’اپنا ٹائم آئے گا۔‘
گزشتہ روز انگلش پریمئیر لیگ کے 9 ماہ اور 38 میچوں پر محیط سیزن کا اختتام ہوا جسے مانچسٹر سٹی نے اپنے نام کیا۔ اس سیزن کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی فاتح ٹیم کا فیصلہ سیزن کے آخری روز ہوا اور دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم لیورپول تھی۔ لیورپول مانچسٹر سٹی سے صرف ایک پوائنٹ پیچھے رہی۔ جو ان 29 سالوں میں فتح کے اتنے قریب پہلے کبھی نہیں پہنچی تھی۔
عموماً لوگ لیورپول کی ماضی کی فتوحات کا ذکر کرتے ہیں، جب وہ یورپ کی بہترین ٹیم ہوا کرتی تھی۔ کوئی ایسا اعزاز نہیں تھا جسے لیورپول نے اپنے نام نہ کیا ہوا۔ گزشتہ روز جب لیورپول جیت کے بالکل قریب پہنچ کر بھی ٹرافی نہ اٹھا سکا تو مجھے شدید مایوسی ہوئی۔
میں ان دنوں برطانیہ میں ہی موجود ہوں اور مجھے لیورپول کی حالیہ بہترین کارکردگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ لیورپول فٹبال کلب صرف ایک فٹبال کلب نہیں بلکے ایک شہر اور دنیا بھر میں موجود اس کے حامیوں اور فینز کی امیدوں کا منبع بھی ہے۔ گزشتہ روز لیورپول نے اپنا میچ تو جیتا مگر لیگ جیتنے کے لیے ضروری تھا کہ مانچسٹر سٹی اپنا میچ ہارے یا برابر کرے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ مجھے دکھ ہوا کہ 38 میچوں پر محیط لیگ میں صرف ایک میچ ہارنے والی ٹیم پھر بھی فاتح نہ ہوسکی۔ پریمئیر لیگ کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک ٹیم نے 97 یا 97 سے زائد پوائنٹ لیے ہوں اور وہ فاتح نہ رہی ہو۔ سال کا بہترین کھلاڑی لیورپول سے تھا، سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑیوں میں سے 2 کھلاڑی لیورپول کے تھے اور سے سب سے کم گول کھانے والا گول کیپر بھی لیورپول کا تھا مگر پھر بھی لیورپول فاتح نہ ہو سکا۔ افسوس ہوا۔ مایوسی ہوئی۔ لگا تھا کہ اپنا وقت آ گیا ہے۔
مگر جہاں مایوسی ہوئیی، وہیں یہ یقین بھی پختہ ہوا کہ 29 سالوں کا انتظار اب عنقریب ختم ہونے کو ہے۔ جب سیزن اپنے اختتام کو پہنچا اور یہ واضح ہوا کہ لیورپول بہترین کھیل کر بھی پہلے نمبر پر نہیں آ سکا تو انگلینڈ میں موجود لیورپول کے حامیوں نے ٹیم کو کوسنے کی بجائے میچ کے بعد کھلاڑیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے نغموں کا سہارا لیا اور ٹیم کے مینیجر نے بھی تمام مداحوں کا شکریہ اس عزم کے ساتھ کیا کہ پریمئیر لیگ ٹرافی اب زیادہ دور نہیں۔
یقین پختہ ہے کہ اپنا ٹائم بھی آنے والا ہے۔