گورا رنگ، دراز قامت، متناسب بدن، سلیقے سے جمی ہوئی زلفیں اور سیاہ پلکوں کے عقب سے جھانکتی ہوئی نیلی آنکھوں والے فضل محمود کو جب ہالی وڈ کی خوبرو اداکارہ ایوا گارڈنر نے پہلی دفعہ دیکھا تو مبہوت ہو کر رہ گئیں۔
1955 میں انگریزی فلم ’بھوانی جنکشن‘ کی فلم بندی کے لیے ایوا گارڈنر جب لاہور آئیں تو ان کی فضل محمود سے ملاقات ہوئی، جس میں فضل کی شاندار شخصیت اور وجاہت نے ایوا کو دیوانہ کر دیا۔
اس وقت تک فضل محمود کرکٹ کے افق پر چھا چکے تھے اور میدان میں اپنی تیز بولنگ کے سبب مشہور تھے تو میدان سے باہر مہ جبینوں کے جھرمٹ میں گھرے رہتے تھے۔ کسی فلمی ہیرو کی مانند ان کا ہر جگہ استقبال ہوتا تھا۔
اس زمانے کی دوشیزاؤں اور اینگلو انڈین لڑکیوں کو کرکٹ کی سمجھ نہ تھی لیکن فضل محمود کی وجاہت کا اتنا کریز تھا کہ خواتین ان سے آٹوگراف لینے کے لیے گھنٹوں انتظار کرتیں۔
فروری 1927 میں لاہور میں پیدا ہونے والے فضل محمود کو بچپن سے کرکٹ سے بہت لگاؤ تھا جو بڑھ کر جنون بن رہا تھا۔
والد کی توجہ اور محنت نے اس عشق کو آتش بنا دیا۔ ان کے والد خود بھی کرکٹ کے کھلاڑی اور شائق تھے۔
وہ اسلامیہ کالج لاہور میں معاشیات کے پروفیسر اور کرکٹ ٹیم کے منتظم تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ فضل بڑے کرکٹر بنیں۔
فضل خوش قسمت تھے کہ انہیں اوائل عمری میں مخلص کوچ ملے، جن کی سخت محنت اور مہارت نے انہیں جلد جاں فشاں کرکٹر بنا دیا۔ گھنٹوں نیٹ پر بولنگ کرکے وہ جلد ہی اعلیٰ پائے کے بولر بن گئے۔
اس دور میں کرکٹ محدود پیمانے پر ہوتی تھی اور پسند ناپسند کا عنصر رہتا تھا جس سے کھلاڑیوں کا انتخاب مشکل سے ہو پاتا۔
1946 کے دورہ انگلینڈ کے لیے وہ منتخب نہ ہوسکے تو بہت دلبرداشتہ ہوئے کیونکہ ان کی بولنگ کی شہرت اب لاہور سے دہلی اور بمبئی تک پہنچ گئی تھی اور سب کا خیال تھا کہ وہ منتخب ہوجائیں گے۔
اس زمانے میں قائد اعظم اسلامیہ کالج لاہور آئے تو فضل محمود سے ان کا تعارف ہوا۔ قائد اعظم ان کی کرکٹ کی کارکردگی سن کر بہت خوش ہوئے اور کہا ’کیپ اٹ اپ ینگ مین۔‘
فضل محمود اپنی بائیو گرافی میں ان الفاظ کو زندگی کا سب سے بڑا انعام تصور کرتے ہیں۔
1946 میں جب ریسٹ آف انڈیا کی طرف سے کھیلتے ہوئے فضل محمود نے متحدہ ہندوستان کی قومی ٹیم کے چھ کھلاڑی آؤٹ کیے تو اس وقت کے کپتان وجے مرچنٹ کو بہت افسوس ہوا کہ ایک ہیرے کو نظر انداز کر دیا گیا۔
1947 کا دورہ آسٹریلیا
آزادی کے اعلان کے بعد بھارتی ٹیم کو آسٹریلیا کا دورہ کرنا تھا، جس کے لیے فضل محمود کا انتخاب یقینی تھا۔
ٹیم کے دورے سے قبل مہاراشٹر کے شہر پونا میں کیمپ لگایا گیا۔ کیمپ کے اختتام پر جب فضل محمود بمبئی جا رہے تھے تو ٹرین میں انتہاپسندوں نے مسلمان جان کر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
اس وقت ان کے ساتھ سفر کرنے والے سی کے نائیڈو اپنا بلا نکال کر فضل محمود کی ڈھال بن گئے اور کہا خبردار کسی نے فضل کو ہاتھ لگایا جس سے بلوائی بھاگ گئے۔
تاہم فضل محمود اس واقعے اور اگلے دنوں میں مہاجرین پر ہونے والے حملوں سے بہت دلبرداشتہ ہوگئے اور پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
اس فیصلے سے وہ بھارتی ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا کا دورہ کرسکے اور نہ ہی سر ڈان بریڈ مین کے خلاف کھیل سکے، جس کا ان کو ہمیشہ قلق رہا۔
اگرچہ ان کے فیصلے کو بدلنے کے لیے سی کے نائیڈو، لالہ امرناتھ اور دوسرے ساتھیوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ راضی نہ ہوئے ۔
پاکستان کی طرف سے کارنامے
پاکستان نے اپنی ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز بھارت کے خلاف 1952 میں کیا۔ فضل محمود پاکستان کے سب سے اہم رکن تھے اور ان کی بولنگ کی دھاک ان سے پہلے بھارت پہنچ چکی تھی۔
دہلی کا پہلا ٹیسٹ ہار جانے کے بعد پاکستان لکھنؤ کا دوسرا ٹیسٹ میچ جیت گیا جس کا سارا کریڈٹ فضل محمود کو جاتا ہے۔
میچ میں 12 وکٹ لے کر انہوں نے دنیائے کرکٹ میں دھواں دار آمد کا اعلان کیا۔
اوول کے ہیرو
1955 میں انگلینڈ کے ایک سکول میں جب جغرافیہ کی ٹیچر نے کلاس میں پوچھا کہ پاکستان کہاں ہے تو پوری کلاس خاموش تھی۔ ایک بچی نے کہا جہاں فضل محمود رہتے ہیں وہاں پاکستان ہے۔
یہ ایک ایسا جواب تھا جس سے فضل محمود کی شہرت عیاں ہوتی ہے۔
فضل محمود نے 1954 کے انگلینڈ دورے پر اتنی خطرناک بولنگ کی کہ مقامی میڈیا کی خبروں کا محور بن گئے۔
پاکستان نے اس دورے پر چار ٹیسٹ میچ کھیلے، جن میں سے ایک میں شکست اور ایک میں فتح ہوئی ۔
اوول ٹیسٹ میں پاکستان نے سنسنی خیز انداز میں انگلینڈ کو 24 رنز سے شکست دی۔ اس میچ کی دو اننگز میں فضل محمود نے ایک بار پھر 12 وکٹ لے کر اپنا ہی ریکارڈ برابر کردیا۔
اس ٹیسٹ میں فضل محمود کی سوئنگ بولنگ دیکھ کر ہٹن اور کومپٹن جیسے زبردست بلے باز بھی حیران ہوئے۔
فضل محمود اپنے ہم عصروں خان محمد اور محمود حسین کے برعکس میڈیم پیس بولنگ کرتے تھے لیکن انہیں ان سوئنگ اور آف کٹر پرغیر معمولی مہارت حاصل تھی۔
وہ پرانی گیند سے بھی بہت عمدہ سوئنگ کرتے تھے۔ وہ کریز کا استعمال بھی بہت عمدہ کرتے، جس سے ان کی آؤٹ سوئنگ کھیلنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔
ملکہ برطانیہ سے ملاقات
1954 کے انگلستان کے دورے پر جب پاکستان ٹیم کی ملکہ برطانیہ سے ملاقات ہوئی تو ملکہ بھی فضل محمود کی آنکھوں سے متاثر ہوئیں۔
انہوں نے سب سے پہلے فضل محمود سے ہاتھ ملایا اور پھر بقیہ ٹیم سے، آخر میں پھر فضل کے قریب آکر کہا ’آپ کی آنکھیں کتنی نیلی ہیں۔‘
کرکٹ کیرئیر
اس دور میں ٹیسٹ کرکٹ بہت کم کھیلی جاتی تھی اور انٹرنیشنل دورے طویل وقفے سے ہوا کرتے جس کے باعث یہ عظیم بولر 11 سال میں صرف 34 ٹیسٹ کھیل سکا۔
انہوں نے کُل 139 وکٹیں حاصل کی جس میں ایک میچ میں 10 سے زیادہ وکٹیں لینے کا کارنامہ چار بار انجام دیا۔
1958 میں پورٹ آف سپین میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی دفعہ جب ٹیسٹ میچ جیتا تو فضل محمود کے مرہون منت تھا، جنہوں نے آٹھ کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایا۔
فضل محمود نے پاکستان کی کپتانی بھی کی۔ وہ 10 ٹیسٹ میچوں میں قائد رہے لیکن کپتانی ان کو راس نہیں آئی کیونکہ اس کے بعد ان کا سورج غروب ہونے لگا۔
آسٹریلیا سے ہوم سیریز ہار گئے اور بھارت سے سیریز بمشکل ڈرا کرسکے۔ اس دور میں ان کے سابق کپتان حفیظ کاردار اور دوسرے سینیئر کھلاڑیوں سے اختلافات بڑھنے لگے۔
1962 کے دورہ انگلینڈ پر انہیں ڈراپ کردیا گیا۔ بعد ازاں بولرز کی کمی پر انہیں طلب کیا گیا لیکن وہ 1954 والی کارکردگی نہ دکھا سکے۔
وہ صرف دو ٹیسٹ میچ کھیل سکے، جن میں پانچ وکٹ ہی ان کے حصے میں آئے۔ لندن میں پانچواں ٹیسٹ میچ ان کے کیریئر کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا اور یوں ایک گوہر نایاب اپنے انجام کو پہنچا۔
فضل محمود کو وزڈن نے 1954 میں اپنے پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شامل کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے سپر سٹار تھے جو شہرت کی اعلیٰ ترین بلندیوں پر پہنچے۔
پوسٹر بوائے
اگر بھارت کے پہلے کپتان سی کے نائیڈو سب سے پہلے اشتہارات میں آنے والے کرکٹر تھے تو پاکستان میں فضل محمود سب سے پہلے اشتہارات کی زینت بنے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بریل کریم کی تشہیر کے لیے ان کے بڑے بڑے پوسٹر لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر آویزاں ہوتے تو خواتین مڑمڑ کر اس وجیہ و جمیل کرکٹر کو دیکھتیں۔
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد فضل محمود پنجاب پولیس کے ملازم رہے اور ڈی آئی جی کے عہدے تک پہنچے۔
پولیس کی ملازمت کے بعد ان کا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا اور وہ طاہر القادری کے معتقد ہوگئے۔ انہوں نے 1990 میں تحریک منہاج القران کی طرف سے الیکشن بھی لڑا تاہم کامیاب نہ ہوسکے۔
فضل محمود ایک شریف النفس انسان تھے اس لیے کسی بڑے گروپ سے وابستہ نہ ہوسکے ورنہ جس پائے کے وہ بولر تھے اگر ان کی خدمات کا فائدہ اٹھایا جاتا تو وہ بہت سارے فاسٹ بولر بنا سکتے تھے۔
کرکٹ کا یہ نایاب ہیرا جس کی چمک دمک سے گراؤنڈ چمکتا تھا 30 مئی، 2005 کو منوں مٹی کے نیچے سو گیا جس کی بولنگ کی یادیں آج بھی اوول کے میوزیم میں سجی ہوئی ہیں اور ایک قد آور پوسٹر میں مخصوص بولنگ کا انداز دیواروں کی زینت ہے۔
فضل محمود کو ان ہی کے ملک میں گمنام کر دیا گیا اور ان کی تباہ کن بولنگ ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے۔