قومی کرکٹ ٹیم ان دنوں نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے جہاں وہ دو ٹیسٹ میچز کھیلے گی۔
پاکستان اس سے پہلے 13 مرتبہ نیوزی لینڈ کا دورہ کرچکا ہے جن میں ایک دورہ دسمبر 2003 کا بھی شامل ہے۔ اس دورے میں پاکستان نے دو ٹیسٹ کھیلے تھے جن میں ایک ٹیسٹ میچ ڈرا ہوگیا تھا جبکہ دوسرا ٹیسٹ پاکستان نے جیت لیا تھا۔
پاکستان کی ٹیم کے اس دورے پر کپتان انضمام الحق تھے جو اپنے بے ساختہ جملوں کے لیے مشہور تھے وہ اکثر اتنی سادگی سے بات کرتے تھے کہ سننے والے دیر تک ہنستے رہتے تھے۔
انضمام جتنے بڑے کھلاڑی تھے اس سے زیادہ خوش اخلاق شخص ہیں۔ وہ میچ کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی بہت سادگی سے بیان کر دیتے ہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ نیوزی لینڈ کے اس دورے پر ویلنگٹن ٹیسٹ میں پیش آیا تھا جو پاکستان جیت گیا تھا۔
ویلنگٹن کے اس ٹیسٹ میں پاکستان کی جیت میں سب سے اہم کردار راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کا تھا جن کی ریورس سوئنگ نے نیوزی لینڈ کی بیٹنگ کو تتر بتر کردیا تھا۔
نیوزی لینڈ نے پہلی اننگز میں شعیب کی شاندار بولنگ کے باوجود جیکب اورم کی مدد سے 366 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں پاکستان پہلی اننگز میں 196 رنز بنا سکا تھا۔
جب نیوزی لینڈ نے اپنی دوسری اننگز شروع کی تو اسے 170 رنز کی پہلے ہی برتری حاصل تھی اور پاکستان کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے سب کو یہ اندازہ تھا کہ نیوزی لینڈ مزید 150 رنز بنا کر ڈیکلئیر کردے گا اس طرح 300 رنز سے زائد ہدف پاکستان کے لیے ناممکن ہوگا۔
نیوزی لینڈ نے جب دوبارہ بیٹنگ شروع کی تو ابتدائی اوورز میں ایک وکٹ تو پاکستان کو مل گئی لیکن پھر نیوزی لینڈ نے آہستہ آہستہ سکور آگے بڑھانا شروع کردیا تھا۔
جب تک سکور 73 رنز پر پہنچا تو تین وکٹیں ہی گری تھیں لیکن اس کے بعد پھر شعیب اختر کا وقت شروع ہوگیا۔ تھوڑی سی پرانی کوکا بورا گیند جس کی سطح جلدی کھردری ہوجاتی ہے ویلنگٹن کی ایک تیز دوپہر میں جب شعیب کے ہاتھ سے نکلتی تو وکٹ تک پہنچتے پہنچتے کئی زاوئیے بدلتی کئی رخ اپناتی اور پھر تیر کی طرح وکٹوں میں گھس جاتی۔
شعیب اختر اپنے کیرئیر میں ویلنگٹن ٹیسٹ میں بولنگ کو یادگار قرار دیتے ہیں۔ اس دن ان کی بولنگ میں خنجر کی چمک ہی نہیں تلوار کی کاٹ بھی تھی۔ شاید ریورس سوئنگ کا اتنا شاندار منظر کیویز نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
صرف 33 رنز پر سات وکٹوں کا گر جانا نیوزی لینڈ کے لیے حیرت انگیز بھی تھا اور کرب آمیز بھی۔ اپنے ہی گھر میں اس طرح شکار ہو جانے کو کپتان سٹیفن فلیمنگ نے مایوس کن قرار دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شعیب اختر نے دوسری اننگز میں صرف 30 رنز دے کر چھ کھلاڑی آؤٹ کیے تھے اور میچ میں 11 وکٹیں لیں۔ یہ ایک زبردست کارکردگی تھی۔
106 پر اننگز تمام ہو جانے کا مطلب پاکستان کو جیتنے کے لیے 277 رنز کا سمندر عبور کرنا تھا۔
دوسری اننگز میں زیادہ تر پاکستان کا ریکارڈ بہت خراب ہے اور متعدد دفعہ پاکستان مختصر سے ہدف کو بھی حاصل نہیں کرسکا ہے۔ لیکن پاکستان کے بلے باز آج ویلنگٹن میں سپیڈ سٹار شعیب اختر کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتے تھے۔ پہلے تو یاسر حمید نے اچھی بیٹنگ کی اور 59 رنز سکور کیے اور پھر کپتان انضمام الحق اور محمد یوسف نے زبردست بیٹنگ کرکے جیت کا ہدف قریب کرلیا۔
میچ کے چوتھے دن کے آخری گھنٹے میں دونوں نے سکور 246 رنز تک پہنچا دیا تھا۔ ابھی ایک روز باقی تھا اور پاکستان کو جیت کے لیے صرف 31 رنز مزید چاہیے تھے۔
چوتھے دن آخری گھنٹے کے اوورز جب پھینکے جارہے تھے تو امپائر اشوکا ڈی سلوا اور جان آرچرڈ پاکستانی کپتان کے پاس گئے اور قانون کے مطابق پوچھا کیا وہ آدھا گھنٹہ زیادہ بیٹنگ کرنا چاہیں گے تاکہ آج ہی ہدف پورا کرلیں۔ انضمام الحق نے کچھ سوچ کر کہا نہیں بلکہ کل دوبارہ بیٹنگ کرنا پسند کریں گے۔
یہ کہہ کر وہ باہر آگئے اور ٹیم واپس ہوٹل پہنچ گئی۔ ہوٹل کے کمرے میں جب سونے لیٹے تو جیت کی خوشی سونے نہیں دے رہی تھی۔ کچھ دیر گزری تھی کہ بارش کی بوندوں کی آواز آنے لگی انضمام ہڑبڑا کر اٹھ گئے اور پردے ہٹا کر باہر کا منظر دیکھنے لگے جہاں پانی کا گرتا ہوا شور ان کے سکون کو تہہ وبالا کرنے لگا۔
اب انضمام اس وقت کو کوسنے لگے جب انہوں نے ٹیسٹ اگلے دن تک موقوف کرنے کا فیصلہ کیا۔ انضمام کہتے ہیں کہ ’میں رات بھر سو نہ سکا اور بار بار کھڑکی کا پردہ ہٹا کر دیکھتا تھا بارش تھمی یا نہیں۔ میں رات بھر دعائیں کرتا رہا کہ بارش رک جائے۔ ‘
انہیں فکر تھی کہ کہیں جیتا ہوا میچ ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔
رات بھر دعائیں کرکے جب صبح گراؤنڈ پہنچے تو بارش رک چکی تھی اور گراؤنڈ پاکستان کے مزید 31 رنزکے لیے تیار تھا جو دونوں بلے بازوں نے کچھ ہی دیر میں پورا کرلیا اور پاکستان نے سیریز اپنے نام کرلی۔
انضمام الحق نے اپنے کیرئیر میں کئی ایسی راتیں گزاری ہیں جب صبح کے میچ کی سنسنی خیزی نے تمام شب بے چینی کا راج رکھا اور وہ بستر پر کروٹیں بدلتے رہے۔ لیکن ویلنگٹن ٹیسٹ کی یہ رات ہمیشہ یاد رکھیں گے جس میں رات بھر بے خوابی کے پیچھے شکستکی مایوسی نہیں بلکہ فتح کی بے چینی تھی جو ان کے ہاتھوں سے کچھ دیر کو سرکنے لگی تھی۔