اکبر خان کو جب ضلع دیر کی تاریخی اہمیت کا پتہ چلا تو انہوں نے تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا جس میں انہیں سدو کے علاقے میں موجود کچھ پتھروں پر انسکرپشن (نقوش) کا پتہ چلا۔
اس کے بعد انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ ان پتھروں کو ڈھوںڈ نکالیں گے۔ یوں پچھلے سال وہ اپنی کوشش میں کامیباب ہوئے اور سدو راک کراونگ کو دوبارہ دریافت کر لیا۔ اکبر نے محققین کے حوالے سے بتایا کہ یہ 1800 سال پرانے نقش ہیں۔
61 سالہ اکبر خان ایک سماجی کارکن ہیں اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
وہ آثار قدیمہ کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور گذشتہ 10 سالوں سے ضلع دیر میں تاریخی مقامات کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپنے گھر کی بیسمٹ میں سینکڑوں کتابوں کے بیچ بیٹھے اکبر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں آرکیالوجی کا شوق پہلے سے تھا اور اب ان کی زندگی پتھروں کو ڈھونڈنے میں گزر رہی ہے۔
سدو خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں چترال روڈ پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں دریائے پنجکوڑہ کے دونوں جانب بڑے بڑے پتھر صدیوں پرانی تاریخ اپنے دامن میں چھپائے پڑے ہیں۔
یہ پتھر مشہور زولم پل کے دائیں جانب موجود ہیں۔ اکبر خان نے بتایا کہ اس تاریخی مقام کا ذکر کچھ محققین کے تحقیقی مقالوں اور کتابوں میں موجود ہے لیکن ان محققین نے خود اس جگہ کا دورہ نہیں کیا۔
اکبر کے مطابق ان پھتروں پر مقامی سطح پر پہلی مرتبہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم نے کام کیا اور پچھلے سال ان کا اسی مقام پر تحقیقی مقالہ بھی شائع ہوا۔
مقالے کے مطابق یہ نقش پہلی مرتبہ 1872 میں الیگزینڈر کنگگم نامی محقق نے دریافت کیے، جس کا ذکر ’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ میں موجود ہے۔ اس کے بعد اکبر خان نے اس کو دوبارہ دریافت کیا۔
مقالے میں ڈاکٹر نسیم نے لکھا کہ اکبر خان نے جب اس جگہ پر موجود پتھروں کی تصاویر ان کے ساتھ شیئر کیں تو انھوں نے خود اس جگہ کا دورہ کیا تاکہ بہتر طریقے سے ان پتھروں پر درج حروف کا مطالعہ کیا جائے۔
’اس دورے سے ہمیں ایک فائدہ یہ ہوا کہ پتھروں کے قریب دریائے پنجکوڑہ پر ہمیں ایک پرانے پل کے آثار بھی مل گئے۔‘
مقالے کے مطابق مذکورہ نقش مختلف پتھروں پر کیے گئے جو دریائے پنجکوڑہ پر برطانوی دور کے زولم پل کے آس پاس موجود ہیں۔
یہی پل ممکنہ طور پر پشاور وادی کو باجوڑ اور افغانستان کو ایک دوسرے سے ملاتے تھے۔ اب بھی یہ پل موجود ہے جو ضلع دیر اور ضلع باجوڑ کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔
پتھروں پر کس زبان کے حروف درج ہیں؟
اکبر خان نے بتایا کہ پتھروں پر ہندوستانی سکرپٹ خروشتی میں حروف لکھے گئے ہیں۔ یہ 800 قبل مسیح میں آرامک سکرپٹ سے الگ ہوا جبکہ خروشتی سکرپٹ چوتھی قبل میسح میں یہاں متعارف ہوا۔
’پانچویں صدی عیسوی تک یہاں یہ مشہور عام سکرپٹ بنا تھا، جس کی نقش و نگاری وسطیٰ ایشیا، چین، ٹیکسلا، جمال گڑھی میں بھی ملی جبکہ خروشتی سکرپٹ گندھارا تہذیب کا قبول عام سکرپٹ رہا ہے۔‘
ڈاکٹر نسیم کے مقالے کے مطابق یہ حروف تقریباً1800 سال پرانے ہیں یعنیٰ یہ پہلی اور تیسری صدی قبل میسح کے درمیان لکھے گئے۔
اکبر خان نے بتایا کہ یہ یونانیوں کے بعد کا دور ہے، یعنی تیسری صدی میں یہاں موریا سلسلے (زیادہ تر انڈین علاقے اس میں شامل تھے) کی حکومت رہی ہے اور بعد میں انڈو آرین اور ساکین آئے۔
اکبر خان نے بتایا، ’شواہد سے پتہ چلاتا ہے کہ اس علاقے یا اس سے اوپر نیچے جگہ پر ارسطو نے اس دریا کو عبور کیا جبکہ یونانیوں کے بعد آنے والے ادوار میں بھی لگتا ہے کہ اسی روٹ کو استعمال کر کے لوگ باجوڑ پہنچے کیونکہ باجوڑ میں اس قسم کے کچھ آثار موجود ہیں جو ان کے ساتھ لنک کیے جا سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر نسیم نے اپنی تحقیق میں ایک پتھر پر نقش کا ترجمہ بھی کیا ہے، جو کچھ یوں ہے۔
' provided a dwelling place to rest.’.۔اسی طرح ایک دوسرے پتھر پر لکھا ہے ' the daughter of’ جبکہ ایک پتھر پر درج ہے 'of the son of malikava یعنی کسی بادشاہ کا بیٹا جبکہ ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ‘creation of Raja Hisa’ ۔
اس سارے جملے کا ترجمہ ڈاکٹر نسیم نے کچھ یوں کیا: Creation of Raja Hisa, the son of Malikava or with less probability, ‘cause to be done for the Haisarya, the son of Malikava. جس کا اردو ترجمہ ہے: ’راجا ہسار کا بنایا ہوا جو بادشاہ کا بیٹا ہے۔‘
مقالے کے مطابق انسکپرشن میں استعمال ہونے والا لفظ ' malika’ ایرانی ہے جو بادشاہ کو کہتے ہیں، سنسکرت میں یہ لفظ پرندے کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ گندھارہ میں یہی لفظ استعمال ہوا جس سے بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حروف 238 قبل مسیح میں پارتین دور میں استعمال کیے جاتے تھے۔
مقالے میں لکھا گیا ہے، ’ان الفاظ سے واضح طور پر تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس سے کیا مراد ہے لیکن اتنا پتہ چلتا ہے کہ ہسار کی حکم پر کچھ کام کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور شاید یہاں پر کوئی چیز بنانے کا کہا گیا ہو۔ اس کے شواہد اسی علاقے میں دریائے پنجکوڑہ پر تعمیر کیے گئے ایک پل کے آثار ہیں۔‘
ڈاکٹر نسیم نے اپنی تحقیق میں یہ بھی لکھا کہ نقوش سے پتہ چلتا ہے کہ کسی ایک شخص نے انہیں ایک وقت میں نہیں بلکہ مختلف ادوار میں یہاں سے گزرنے والے مختلف لوگوں نے لکھا جبکہ یہ بھی واضح نہیں کہ یہ علاقہ اس دور میں کتنا اہم تھا۔
تاہم مقالے کے مطابق اتنا پتہ چلتا ہے کہ یہ نقش پری ہسٹارک دور کے نہیں بلکہ ہسٹارک دور کے ہیں۔
کیا یہ جگہ ماضی میں ایک تجارتی مرکز تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر نسیم نے اس جگہ کی اہمیت کے بارے میں لکھا کہ یہ ایک دور دراز علاقہ ہے جہاں تک موجودہ سڑک سے پہلے مواصلات کا کوئی نطام نہیں تھا اور لوگ خچروں، پیدل یا دیگر جانوروں کو آمدورفت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ڈاکٹر نسیم کے لکھا چونکہ یہ نقش دریا کے دونوں جانب پتھروں پر موجود ہیں تو غالب امکان ہے کہ یہ علاقہ ایک تجارتی مرکز تھا اور گرمیوں میں جب دریائے پنجکوڑہ میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہوتا تھا تو تاجر اپنے سامان سمیت یہاں پر قیام کرتے تھے۔
اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی دور میں اس جگہ پر دریا پر لکڑی سے بنا پل تعمیر کیا گیا جہاں سے برطانوی فوج اپریل 1895 میں ضلع دیر کے علاقے جندول وادی کے اس وقت کے سردار عمرا خان سے جنگ لڑنے کے لیے پار کرتی تھی۔