شہری ترقی اور رہائشی سہولیات کے لحاظ سے وسطی افغانستان کا ایک کم ترقی یافتہ علاقہ بامیان ہے جہاں ترقی کی رفتار سست تو ہے مگر ہو رہی ہے۔
مگر پچھلے 20 سالوں میں صوبے میں سب سے زیادہ ملکی اور غیر ملکی سیاح دیکھے گئے ہیں۔
یہاں تک کہ پچھلے کچھ سالوں میں جب عدم تحفظ نے غیر ملکیوں کو روکے رکھا مگر اب ممکن ہے کہ کسی بھی خدشات سے قطع نظر، بامیان کی سرسبز وادیوں میں اس ویران اور محروم صوبے کی فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے غیر ملکی سیاحوں کو دیکھا جائے۔
بامیان گذشتہ 20 سالوں میں متعدد بار موسیقی اور میلوں کی میزبانی کر چکا ہے اور علما کی سخت مخالفت کے باوجود کوئی بھی کنسرٹ یا میلوں کو بامیان میں ہونے سے نہیں روک سکا ہے۔
حال ہی میں جمعہ 28 مئی کو بامیان میں ہزاروں افغان شہریوں اور متعدد غیر ملکی سیاحوں کی شرکت سے سیاحت کے سیزن کا پہلا میلہ لگا۔
اس میلے کا آغاز بامیان کے محکمہ اطلاعات و ثقافت نے سیاحوں کی دلچسپی کی عکاسی کرنے اور ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے کیا تھا۔
میلے کی میزبانی کرنے والے بامیان کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کے سربراہ اسحاق موحید نے کہا کہ اس صوبے کے سیاحتی مقامات کی توجہ ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو راغب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس طرح کے تہواروں کے انعقاد سے بامیان میں زیادہ سیاح آئیں گے۔
سیاحتی سیزن فیسٹیول میں مقامی موسیقی، تھیٹر اور کھیل بھی شامل تھے اور اس میلے میں زیادہ تر گلوکار خواتین تھیں۔
تاہم اس تہوار کا انعقاد اتنا آسان بھی نہیں تھا۔
بامیان شیعہ کونسل علمائے کرام نے اس تہوار پر تیزی سے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’چنچل اجتماع‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبے کی علما کونسل نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں زور دیا گیا کہ اس طرح کے پروگرام کا انعقاد ممنوع ہے۔
بامیان علما کونسل کے رد عمل کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور متعدد صارفین نے علما کونسل کے رد عمل کو لوگوں کی خوشی کی ’مخالفت‘ قرار دیا۔
یہ میلہ نیشنل پارک (بینڈ عامر) میں منعقد ہوا، جو افغانستان کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ علما جو میلے میں خلل ڈالنے کے لیے بینڈ عامر پارک آئے تھے، جب انہوں نے لوگوں کے سیلاب کے سامنے خود کو تنہا پایا تو انہوں نے براہ راست اعتراض کرنے کی بجائے جمعہ کی نماز تہوار کے مقام کے پاس پڑھائی اور یہ ایک خوبصورت منظر تھا کہ کہ تہوار کے شرکا کی ایک بڑی تعداد نے جمعہ کی اس نماز میں شرکت کی۔
بعد میں جیسے ہی نماز ختم ہوئی تو وہ میلے میں واپس آئے اور ہزاروں دیگر افراد کے ساتھ میلہ جاری رکھا۔
بامیان میں 2013 میں پہلا میوزک فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا۔ عراق میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے اشتراک سے افغان حکومت کی طرف سے شروع کیے جانے والے اس میلے کی شہر کے علما نے سخت مخالفت کی تھی۔
علاقے کے علما نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ اس تہوار میں شرکت نہ کریں۔