پاکستان نے سابق اسرائیلی وزیر دفاع نفتالی بینیت کی جانب سے اسلام آباد میں واقع ایک ہسپتال کی تصویر دکھاتے ہوئے اسے فلسطینی تنظیم حماس کا غزہ میں موجود ہیڈ کوارٹر قرار دینے پر شدید اعتراض کیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دائیں بازو کی جماعت سے تعلق رکھنے والے مذکورہ اسرائیلی سیاست دان کے اس بیان پر شدید تشویش ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے گذشتہ ماہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے کے خلاف بین الااقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم شروع کی تھی۔ فلسطینی علاقوں میں کیے جانے والے ان حملوں میں 10 سے 21 مئی کے دوران 240 افراد مارے گئے تھے۔
20 مئی کو سابق اسرائیلی وزیر دفاع نفتالی بینیت نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے کہا: ’غزہ میں موجود بڑا میڈیکل کمپلیکس اور حماس کا ہیڈکوارٹر جہاں سے یہ گروہ اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہا ہے۔‘
ان کے اس دعوے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف صارفین نے فوری طور پر نشاندہی کی کہ یہ تصویر دراصل اسلام آباد میں موجود شفا ہسپتال کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عرب نیوز کے مطابق زاہد حفیظ چوہدری نے کہا: ’ہم نے اسرائیل کے سابقہ وزیر دفاع کا بیان دیکھا ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ یہ ایک لاشعوری غلطی یا جان بوجھ کر بولا جانے والا جھوٹ ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ ان کے بیان میں ایک پاکستانی عمارت کو غلط انداز میں دکھایا گیا ہے۔‘
مشرق وسطیٰ کے لیے وزیراعظم عمران خان کے نمائندہ خصوصی طاہر محمود اشرفی نے نفتالی بینیت کے اس بیان کو دنیا کو گمراہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’اسرائیل مسئلہ فلسطین اور اسرائیلی مظالم کو دنیا کے سامنے لانے کے پاکستانی کردار پر پریشان ہے۔ یہ دنیا کو گمراہ کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے کیونکہ اسرائیل غزہ میں ہسپتالوں کو نشانہ بنا چکا ہے۔ ہم پاکستان کو بدنام کرنے کی اس کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’پاکستان فلسطینی قوم کی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک حمایت جاری رکھے گا، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو گا۔‘
دوسری جانب شفا ہسپتال کے ترجمان شجاع روف کا کہنا تھا: ’یہ واضح ہے کہ شفا ہسپتال کی تصویر کو غلط طور پر دکھایا گیا ہے۔ شفا انٹرنیشنل پاکستان کا ایک بڑا ہسپتال ہے، جس کا امریکہ کا جوائنٹ کمیشن بھی اعتراف کرتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ویڈیو کو ہٹایا جائے۔‘