بچوں کی نگہداشت اور کسی ایسی سہولت کی عدم موجودگی میں غزہ میں خال ہی ایسی جگہیں ہوں گی جہاں مائیں مدد کے لیے جا سکتی ہیں۔ ہاں، بچوں کی پرورش کی ہدایات کے لیے چند کتابچے ضرور دستیاب ہیں لیکن یہ ناکافی ہے۔ مایوسی، غصے اور نااُمیدی کی شکار ایسی مائیں اپنا غصہ بچوں پر ہی نکال لیتی ہیں۔
نورالخضرٰی جو خود بھی ایک ماں ہیں، غزہ کی خواتین کی مدد کے لیے سامنے آئی ہیں۔
نور نے ’ممی ہیلپر‘ نامی ایک موبائل ایپ بنائی ہے جس کے ایک بٹن کلک کرنے سے خواتین کوناصرف بچوں کی پرورش سے متعلق معلومات تک رسائی ہو جائے گی بلکہ وہ تربیت یافتہ ماہرین سے بھی رابطہ کر سکتی ہیں۔
یہ عربی زبان میں پہلی ایسی ایپ ہے جس سے جنسی تفریق، گھریلو تشدد یا خواتین کو درپیش دیگر مسائل کے بارے میں مدد طلب کی جا سکے گی۔
نور کا، جو بطور فلم پروڈیوسر بھی کام کر چکی ہیں، کہنا ہے کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں بطور ماں، خواتین کو درپیش مسائل کا ایک سادہ سا حل ہے جن کے بارے میں عام طور پر بات بھی نہیں کی جاتی۔
نور نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’غزہ میں رہنے والا ہر شخص ذہنی دباؤ کا شکار ہے، یہاں داخلی امن کا فقدان ہے،ہم ہر روز خبروں کا انتظار کرتے ہیں کہ اب کیا ہو گا، کون مارا جائے گا، کون سی عمارت نشانہ بنے گی۔ [غزہ میں] بچوں کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ماں، باپ بلکہ پورا کُنبہ شدید دباؤ کا سامنا کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں ماؤں کو نفسیاتی ماہرین یا بچوں کی پرورش کے حوالے سے مشوروں کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ایپ اس سلسلے میں مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
’ہمارے معاشرے میں آپ آسانی سے کسی پیشہ ورماہر تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیں، آپ کے خاندان یا خاوند اس کی اجازت نہیں دیتے۔ لوگ بھی آپ کو پاگل سمجھتے ہیں اور خواتین کو نااہلی کا الزام دیتے ہیں، یہ ایک روایت بن چکی ہے۔ اس سے آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان تمام چیزوں کا غصہ بچوں پر نکلتا ہے۔ لیکن اس ایپ سے آپ کی رازداری بھی برقرار رہتی ہے۔‘
اس ایپ کو امریکی ریاست ڈیلاویئر میں رجسٹرڈ کرایا گیا ہے جس کا مقصد یہ تھا کہ یہ تمام محاصروں، سرحدوں اور رکاوٹوں کو توڑتی ہوئی نہ صرف غزہ بلکہ پوری عرب دنیا کی خواتین کے لیے دستیاب ہو۔
’ممی ہیلپر‘ ایپ کے ذریعے خواتین 100 سے زائد عربی زبان جاننے والے ماہرین کی ٹیم سے آن لائن ادائیگی کے بعد مشاورت کر سکتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نور نے اعتراف کیا کہ یہ ایپ صرف ان خواتین کی پہنچ تک ہے جو سمارٹ موبائل فون خریدنے کی سکت رکھتی ہیں اور یہ بھی کہ اس سے تمام مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا، لیکن امید ہے کہ یہ مسائل کے حل کا ایک ذریعہ بن سکے۔
گزشتہ سال ایپ کے ٹرائل کے دوران ’ممی ہیلپر‘ نے ایسی ماؤں کے لئے مفت خدمات فراہم کی تھیں جو معاوضہ ادا کرنے کے قابل نہیں تھیں یا وہ اپنے شوہروں سے اس بات کی اجازت نہیں لے سکتی تھیں۔
غزہ میں جہاں بہت کم افراد کے بینک اکاؤنٹ یا کریڈٹ کارڈز ہیں، خواتین ایک گھنٹے طویل سیشن کے لئے15 ڈالرز کی ادائیگی کر سکتی ہیں۔
Google Play پر دستیاب یہ ایپ صارف کی مدد کرنے کے لئے بنیادی سوالنامہ بھی فراہم کرتی ہے جس کے بعد عربی زبان میں مفت ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔
نور کو امید ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا استعمال بات چیت کو مزید بہتر بنائےگا۔
ایپ کے ذریعے بچوں کی اچھی پرورش کے لیے مرحلہ وار ہدایات دی جاتی ہیں۔
یہ ناصرف خواتین کے خلاف تشدد کے سلسلے میں مدد گار ہے بلکہ بتاتی ہےکہ کس طرح گھریلو تشدد بچوں کو متاثر کرسکتا ہے۔
خواتین کی بدترین کہانیوں کو سننے کے بعد، نور اس ایپ کو صنف پر مبنی تشدد کے خاتمے کے لئے اسے خیراتی اداروں کے ساتھ منسلک کرنے کی خواہاں ہیں۔
ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق، غزہ میں جنس کی بنیاد پر گھریلو تشدد بڑھا ہے جس کی وجوہات بے روزگاری اور غربت کی شرح میں اضافہ ہے۔
نور کی پہلی خواہش یہ ہے کہ وہ عرب دنیا کی ہر اس خاتون تک پہنچ پائیں جس کو مدد کی ضرورت ہے۔
تاہم ان کا بڑا خواب یہ ہے کہ وہ فلسطین میں پہلی خاتون سرمایہ کار کے طور پر پہچان بنائیں اور کاروبار کو فروغ دے کر دوسری خواتین کو ان کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکیں۔