لاہور کا وہ علاقہ جہاں کسی زمانے میں مغل شہزادوں کی پرتعیش رہائش گاہیں واقع تھیں، اس علاقے کو اب ’مغل پورہ‘ کہا جاتا ہے۔ آج بھی اس علاقے میں گھومیں تو اس کی گنجان آباد گلیوں میں کوئی نہ کوئی مقبرہ یا مغلیہ دور کی مسجد مل ہی جائے گی۔
ان میں سے ایک مقبرہ شاہ جہاں کے تعمیراتی مشیر اور انجینیئر علی مردان خان کا بھی ہے، جسے فن تعمیر کے لحاظ سے نہ صرف شہر کے تمام مقبروں سے بلند سمجھا جاتا ہے بلکہ ان کا مقبرہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں مشیر تعمیرات ہونے کی دلیل بھی ہے۔ کئی سو سال گزر جانے کے باوجود بھی اس عمارت کا ڈھانچہ اس کے شاندار ماضی کا ضامن ہے۔
1650 کے آس پاس تعمیر ہونے والی اس شاندار عمارت کا راستہ مغل پورہ ریلوے ورکشاپ کے عقب میں وہیٹ روڈ کی طرف رکھا گیا ہے، جہاں سے آنے کے لیے پانچ سومیٹر طویل ایک سرنگ تعمیر کروائی گئی۔
اس کے مرکزی دروازے پر تالا لگا ہوا ہے اور عمارت کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں اب دیگر افراد تو دور، انتظامی اہلکاروں کی آمدورفت بھی عرصہ دراز سے بند ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے ریکارڈ کے مطابق نواب علی مردان نے جب یہ مقبرہ تعمیر کروایا تو ان کی والدہ انتقال کرگئیں، جس پر انہیں یہیں دفن کیا گیا اور جب وہ خود وادی کشمیر جاتے ہوئے علالت کے باعث راستے میں دم توڑ گئے تو ان کا جسد خاکی بھی لاہور لایا گیا اور انہیں بھی وصیت کے مطابق اسی عمارت میں دفن کردیا گیا۔
اس مقبرے کی عمارت کے نیچے تہہ خانے میں تین قبریں ہیں، جن میں سے ایک علی مردان، دوسری ان کی والدہ اور تیسری ان کی ہمشیرہ کی بتائی جاتی ہیں۔
نواب علی مردان خان کون تھے؟
تاریخی حوالوں کے مطابق ایک کُرد خاندان میں پیدا ہونے والے نواب علی مردان، شہنشاہِ ایران شاہ عباس اول کے دربار سے منسلک ایک فوجی افسر گنج علی خان کے صاحبزادے تھے، جو تقریباً 30 سال تک کرمان کےحاکم رہے تھے۔
گنج علی کی وفات کے بعد شاہ عباس نے ان کے بیٹے علی مردان کو ’خان‘ کا خطاب دیا اور قندھار کی ریاست عطا کر دی، لیکن جب صفوی خاندان میں اقتدار کی لڑائی شروع ہوئی توعلی مردان خان 1632 میں شاہ جہاں کے دربار سے منسلک ہوئے۔ شاہ جہاں نے علی مردان خان کو کشمیر کے ساتھ ساتھ لاہور کی بھی صوبیداری عطا کی تاکہ گرمیاں کشمیر اور سردیاں لاہور میں گزاری جا سکیں۔ صوبہ اودھ بھی انہیں جاگیر میں ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1641 میں علی مردان خان کو کابل کی صوبیداری عطا ہوئی۔ تاریخ دانوں کے مطابق مغل بادشاہ علی مردان خان پر خاصے مہربان تھے اور انہیں اکثر انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ جنوری 1643 میں انہیں ’امیر الامرا‘ کا خطاب بھی ملا۔
علی مردان خان کی وجہ شہرت ان کی تعمیرات بھی ہیں۔ نقوش لاہور نمبر میں درج ہے کہ نواب علی مردان خان زبردست انجینیئر تھے اور انہیں باغات و عمارات کا بڑا شوق تھا۔ انہوں نے کابل اور کشمیر میں کئی بڑی نہریں کھدوایں اور باغات بنوائے۔
دہلی کی نہر جو شہر اور قلعے کے درمیان سے گزرتی ہے، اس کے علاوہ فیروزپور اور دہلی سے حصار تک جانے والی نہر بھی انہوں نے بنوائی۔ مادھو پور کے قریب جو نہر راوی سے نکل کر شالامار باغ کو سیراب کرتی ہے، انہی کے ماتحت جاری ہوئی۔
اسی طرح پشاور اور کابل میں بھی باغات اور عمارات کی صورت میں ان کی یادگاریں موجود ہیں۔
علی مردان خان کی وفات کشمیر جاتے ہوئے بیماری کے سبب 26 اپریل 1657 کو ہوئی، ان کا جسد خاکی لاہور لایا گیا اور مغل پورہ میں پہلے سے تعمیر کردہ اس مقبرے میں تدفین ہوئی جہاں ان کی والدہ دفن تھیں۔
مقبرے کی عمارت خستہ حال کیوں؟
اس حوالے سے ڈائریکٹر آثار قدیمہ پنجاب ملک مقصود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ نواب علی مردان خان کا مقبرہ مغلیہ دور میں شاندار تعمیرات کا مظہر ہے اور اس کے طرز تعمیر سے ان کے ماہر تعمیرات ہونے کی دلیل بھی ملتی ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ ایک قیمتی اثاثہ ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کی دیکھ بھال میں گذشتہ کئی سالوں سے کسی محکمے نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ جس جگہ پر یہ مقبرہ تعمیر کیا گیا، وہ ریلوے کا علاقہ ہے اور اس کے مین گیٹ پر کئی سالوں سے تالا لگا ہوا ہے۔ ’کئی بار محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی بحالی کے لیے کوشش کی مگر محکمانہ رکاوٹیں آڑے آگئیں۔‘
ملک مقصود نے بتایا: ’اب ہم نے ریلوے حکام سے ملاقاتیں کرکے انہیں قائل کیا ہے کہ اس کا قبضہ ریلوے کے پاس ہی رہے گا، لیکن ایک تالا لگوایا جائے، جس کی دو چابیاں ہوں۔ ایک ہمیں دے دیں اور ایک خود رکھیں مگر اس کی بحالی کا کام کرنا لازمی ہے ورنہ یہ عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تو ہے ہی، مکمل مسمار نہ ہوجائے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ریلوے حکام نے رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ آئندہ بجٹ میں ملنے والی رقم سے اس کی تزئین وآرائش اور اصل حالت میں بحالی کا کام شروع کیا جائے گا تاکہ شہریوں کے لیے اس قومی ورثے کو کھولا جائے اور اس عمارت کا بھی سیاحت کے لیے مشہور لاہور کے تاریخی مقامات میں اضافہ ہوسکے۔