ہم نے کرونا ویکسین لگوائی تو مانو جیسے پانی کا ٹیکہ لگوا دیا ہو۔ پہلی بار بھی یہی ہوا اور دوسری بار بھی۔ نہ کوئی بخار، نہ بدن میں درد، نہ کوئی اور علامت۔ بس جہاں ٹیکہ لگا تھا وہاں ہلکی سی چبھن اور بس۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے اینٹی باڈی ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ کیا کہ آخر پتہ تو چلے ویکسین نے کام کیا ہے یا نہیں۔
اس کی وجہ بھی سن لیں۔ ویکسین لگوانے کے بعد جب ’نہ گل جنبد نہ جنبد گل محمد،‘ تو دل میں ہول اٹھنے لگے تھے کہ پتہ نہیں کیسی ہومیوپیتھک ویکسین ہے، ویسے بھی میڈ ان چین ہے، کیا خبر اس کے اندر کیا ہے۔ ادھر فائزر، موڈرنا لگوانے والوں میں سے جس سے بھی بات ہوئی، انہوں نے ضرور کہا کہ ایک دن بخار ہوا، درد ہوا، وغیرہ وغیرہ۔ خاص طور پر دوسری ڈوز کے بعد کئی لوگوں نے تیز بخار کا مسئلہ بتایا، اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے، اس کا مطلب ہے جسم دھڑا دھڑا وائرس توڑ اینٹی باڈیز بنا رہا ہے۔
مسئلہ یہ تھا کہ دونوں ڈوزیں لگ گئی ہیں، کیا اب بھی پہلے کی طرح بھرپور احتیاط کریں؟ 40 ڈگری کی پسینو پسینہ گرمی میں بھی ماسک چڑھائے رکھیں؟ لوگوں سے اب بھی چھوت چھات والا سلوک کریں؟
نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب فیس بک پر کوئی بتاتا تھا کہ ویکسین لگوانے کے بعد دو دن سے بخار میں پھنک رہا ہوں تو اس پر رشک آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک لیبارٹری میں جا پہنچے اور ان سے مطالبہ کیا کہ ہمیں بتایا جائے ہمارے خون میں کرونا وائرس کی سپائیک پروٹین کے خلاف کتنی اینٹی باڈیز بنی ہیں۔
شام کو پانچ ٹیسٹ کروایا تھا، جس کے بعد ٹیکنیشن نے کہا کہ دو تین گھنٹے تک رزلٹ ای میل کر دیا جائے گا۔ ہم نے آٹھ بجے، سوا آٹھ بجے، ساڑھے آٹھ بجے، غرض ہر دس پندرہ منٹ بعد ای میل چیک کرنا شروع کر دی، حتیٰ کہ سپیم فولڈر بھی الٹا کر دیکھ لیا، لیکن رزلٹ ندارد۔ یقین جانیں کہ میٹرک کا رزلٹ دیکھنے کی بھی اس قدر تڑپ نہیں رہی ہو گی۔
خیر، خدا خدا کر کے بارے کوئی سوا 11 بجے رزلٹ آیا، کانپتے ہاتھوں اور دھڑکتے دل سے پی ڈی ایف فائل کھولی۔ ارے، باپ رے باپ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کووڈ سپائیک اینٹی باڈیز کے خانے میں لکھا تھا: 24.4
جب کہ ساتھ ہی حوالے کے لیے یہ بھی رقم تھا کہ اگر اینٹی باڈی کا لیول 1.5 ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو کرونا ہو چکا ہے۔ گویا ہمارے بدن میں کرونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز کے تازہ دم ہراول دستے ہر دم تیار ہیں کہ ادھر وائرس گھسے اور ادھر وہ اس کا دھڑن تختہ کر ڈالیں۔
اس سے ہمیں خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ چینی ویکسین، جسے ہم گھر کی مرغی سمجھ کر زیادہ گھاس نہیں ڈال رہے تھے، اسی نے چوکھا رنگ دکھا دیا اور ہینگ لگی نہ پھٹکڑی۔
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہمیں جو چینی ویکسین لگی ہے وہ غیر فعال وائرس پر مبنی ہے۔ جہاں موڈرنا اور فائزر کی بنائی ہوئی ویکسینیں صرف وائرس کی سپائیک پروٹین کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرتی ہیں، ناکارہ وائرس پر مبنی ویکسینیں وائرس کے خول کے دوسرے حصوں کے خلاف بھی اینٹی باڈیز تیار کرتی ہیں، جو ہمارے کیے گئے ٹیسٹ میں ظاہر نہیں ہوئیں۔
ہمارے ہاں چینی مصنوعات کے بارے میں ایک محاورہ مشہور ہو گیا ہے، چلے تو چاند تک، نہ چلے تو شام تک۔ ہم باقیوں کی ضمانت تو نہیں لیتے لیکن اپنے کیس کے بارے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ویکسین چاند تک چلی ہے۔