خیبر پختونخوا کے سرکاری ایوب میڈیکل کالج کے تحقیقی جریدے میں شائع ہونے والی تازہ ترین تحقیق کے مطابق پاکستان میں کرونا (کورونا) وائرس کی دوسری لہر کے دوران ایک مریض کے وبا سے دوبارہ متاثر ہونے یعنی ری انفیکشن کا ایک کیس سامنے آیا ہے۔
یہ تحقیقی مقالہ ایوب میڈیکل کالج کے جریدے میں آج یعنی 14 نومبر کو شائع ہوا ہے، جس کے محققین میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پبلک ہیلتھ کے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق، اسی یونیورسٹی کے تحت چلنے والی سرکاری لیبارٹری ( جہاں کرونا کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر یاسر یوسفزئی، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نور سمیت عامر خان، شیراز فازد اور اختر شیرین شامل ہیں۔
تحقیقی مقالے، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب ہے، میں لکھا گیا ہے کہ ’ایک سرکاری محکمے میں کام کرنے والے 41 سالہ شخص کو بخار کی علامات کے ساتھ ہسپتال میں داخل کیا گیا جبکہ ان کا آکسیجن لیول 90 سے 92 فیصد کے درمیان تھا۔ علامات ظاہر ہونے کے بعد ٹیسٹ کے لیے ان کے نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے اور چھ جون کو ان کا کرونا کا ٹیسٹ مثبت آگیا۔‘
تحقیقی مقالے کے محقق ڈاکٹر ضیاء الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مذکورہ شخص کا ٹیسٹ وفاقی سرکاری لیبارٹری این آئی ایچ میں کیا گیا تھا جو مثبت آیا تھا جبکہ انہیں دیگر کوئی خطرناک بیماری بھی لاحق نہیں تھی، جس سے ان کی قوت مدافعت میں کمی ہوتی۔
انہوں نے بتایا: ’ٹیسٹ کے بعد ان کے خون کا ٹیسٹ نارمل رینج میں تھا جبکہ پروٹین لیول 7-5 تھا، جو نارمل 10 تک ہوتا ہے جبکہ سینے پر کرونا سے متاثرہ ہونے کے نشانات موجو دتھے۔‘
تحقیقی مقالے کے مطابق: ’15 دن بعد مذکورہ مریض کو ٹیسٹ منفی آنے کے بعد صحت یاب ڈکلیئر کردیا گیا جبکہ ان کا اینٹی باڈیز ٹیسٹ بھی کیا گیا جو پازٹیو آیا تھا، یعنی ان کے جسم میں کرونا کے خلاف مدافعت کے لیے ضروری اینٹی باڈیز بن گئے تھے۔‘
تاہم اس تحقیقی مقالے کے لیے مذکورہ شخص کو فالو کیا گیا اور چار مہینے 13 دن بعد ان میں دوبارہ کرونا کے علامات ظاہر ہوگئیں، جب ان کا دوبارہ ٹیسٹ کروایا گیا تو وہ مثبت تھا، جبکہ اینٹی باڈیز ٹیسٹ منفی تھا یعنی ان کے جسم میں کرونا سے لڑنے کے لیے بننے والے اینٹی باڈیز دوبارہ ختم ہوگئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ضیاء نے بتایا کہ ’ہم نے اس تحقیقی مقالے میں ڈاکومینٹڈ ری انفیکشن کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے، کیونکہ ہم نے اس کیس کو فالو کیا ہے اور مریض کے سارے ٹیسٹ پولیمرائز چین ریکشن (عالمی ادارہ صحت کی جانب سے تجویز کردہ ٹیسٹ کا طریقہ کار) پر کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’باقی دنیا میں بھی ری انفیکشن پر مختلف جگہوں پر کام جاری ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں یہ پہلا ڈاکومینٹڈ ری انفیکشن کا کیس ہے، جو سامنے آیا ہے اور جسے ہم نے باقاعدہ طور تحقیقی مقالے کی شکل دی ہے۔‘
ڈاکٹر ضیاء کے مطابق: ’اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ باقی دنیا میں ری انفیکشن کے جو کیسز سامنے آئے ہیں، ان کا دورانیہ بہت کم ہے یعنی پہلے انفیکشن اور صحت یابی کے بعد دوبارہ انفیکشن کے درمیان دورانیہ کم ہوتا ہے لیکن اس کیس میں ری انفیکشن کا دورانیہ چار مہینوں سے زیادہ ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’دوبارہ ری انفیکشن اگر پہلے متاثر ہونے کے چند ہی دن بعد ہو تو اس میں امکان ہے کہ ٹیسٹ دوبارہ مثبت آجائے کیونکہ کرونا وائرس کے آثار 42 دن تک رہ سکتے ہیں، تاہم اس کیس میں مکمل صحت یابی ہوگئی ہے، جس سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ ایک واضح ری انفیکشن کا کیس ہے۔‘
ڈاکٹر ضیاء کے مطابق اس مقالے کے لیے جس شخص کو فالو کیا گیا ہے، ان کی ساری دستاویزات، یعنی ٹیسٹس سمیت جتنی بھی کلینیکل دستاویزات ہیں، وہ ہمارے پاس موجود ہیں۔
ڈاکٹر ضیاء نے زور دیا کہ ’عوام کو چاہیے کہ کرونا وائرس کو سنجیدہ لے کر صرف اتنا کریں کہ ماسک پہنیں، سماجی فاصلہ رکھیں اور ایک دوسرے سے ملنے سے اجتناب کریں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ وہ لوگ جو کرونا سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوگئے ہیں، انہیں بھی چاہیے کہ وہ یہ نہ کہیں کہ چونکہ ان کو کرونا ہوگیا ہے تو انہیں ماسک پہنے اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
’ایسا بالکل نہیں ہے۔ کسی کو کرونا ہوا ہے یا نہیں، سب کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، یہ ہمارا قومی فریضہ بھی ہے۔‘
عالمی ادارہ صحت ری انفیکشن کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
کرونا وائرس کے ری انفیکشن کے بارے میں مختلف ممالک میں تحقیقات جاری ہیں، تاہم عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس حوالے سے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے، تاکہ لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی ہو۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق: ’کچھ ممالک میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر کرونا سے صحت یاب شخص میں اینٹی باڈیز پائے جاتے ہیں یعنی کرونا کے خلاف قوت مدافعت کے لیے ضروری اینٹی باڈیز جسم میں بن جاتے ہیں تو ان کو ’امیونٹی پاسپورٹ‘ یعنی فری ہینڈ دے دیا جاتا ہے کہ وہ سفر سمیت روزمرہ کا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔‘
تاہم ڈبلیو ایچ او کے مطابق: ’ابھی تک ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ اگر کسی شخص میں کرونا کے خلاف اینٹی باڈیز موجود ہوں تو اسے دوبارہ یہ وائرس متاثر نہیں کرے گا۔‘