لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے آج دلائل مکمل ہونے کے بعد توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والے ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔
شفقت ایمانوئل اور شگفتہ پر 2013 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں توہین مذہب کا مقدمہ درج ہوا تھا۔
مسیحی جوڑے کو ٹوبہ ٹیک سنگھ عدالت نے 2014 میں سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔
سزا کے خلاف دونوں ملزمان نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔
ملزمان کی جانب سے ایڈووکیٹ سیف الملوک عدالت میں پیش ہوئے۔ سیف الملوک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شگفتہ ملتان جیل میں تھیں اور شفقت فیصل آباد جیل میں تھے جب کہ شفقت کی صحت بھی اچھی نہیں تھی جس کے حوالے سے ہم نے کورٹ میں ایک رپورٹ بھی پیش کی تھی۔ ان دونوں کو ہائی سکیورٹی زون میں رکھا ہوا تھا۔ آج دو ممبر بینچ لاہور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر انہیں بری کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی شارٹ آرڈر بنے گا جو ٹوبہ ٹیک سنگھ جائے گا، وہاں سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج کی روبکار جاری ہو گی جس کے بعد جوڑے کی رہائی اگلے چند روز میں ہو جائے گی۔‘
سیف الملوک کا مزید کہنا تھا کہ ’ابھی عدالت نے باقاعدہ آرڈر جاری نہیں کیا، انہوں نے فیصلہ سنایا اور چیمبر میں چلے گئے۔ ممکنہ طور پر وہ فیصلہ کل لکھیں گے جس کے بعد اس جوڑے کی رہائی کی باقی کارروائی پوری ہو گی۔‘
شگفتہ کوثر اور شفقت ایمانوئل 2013 سے جیل میں تھے۔ انہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ایک عدالت نے اپریل 2014 میں ایک امام مسجد کو موبائل فون پر توہین مذہب کے پیغامات بھیجنے پر سزا سنائی تھی۔ جس موبائل نمبر سے پیغامات بھیجے گئے تھے، وہ شگفتہ کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ تاہم مسیحی جوڑے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ کسی نے شگفتہ کے شناختی کارڈ کی کاپی کو غلط استعمال کرتے ہوئے سم نکلوا کر یہ پیغامات بھیجے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کے لیے تعینات ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر سمیرا حامدی کا فروری میں دیے گئے اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’شگفتہ کوثر اور شفقت ایمانوئل ان خطرات کی علامت ہیں جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو توہین مذہب جیسے قوانین کی موجودگی میں درپیش ہیں۔ دونوں میاں بیوی آٹھ سال سے جیل میں ہیں اور اپنی اپیل کی سماعت کا انتظار کر رہے ہیں، جبکہ اولاً انہیں جیل میں ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ہم ان کی غیر مشروط اور فوراً رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو فوراً اپنے توہین مذہب کے قوانین کو منسوخ کرنا چاہیے کیونکہ اس کا انتہائی غلط استعمال ہونے کی وجہ سے بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ ’پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین بین الاقوامی قوانین برائے انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتے اور مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنانے، ذاتی عناد پر مخالفین کے خلاف کارروائی اور تشدد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘ ایمنسٹی انٹرنیشل کے بیان میں کہا گیا کہ ’جج حضرات بھی ایسے مقدمات میں خوف کے تحت سخت ترین فیصلے دیتے ہیں اور اکثر انہیں اپنی جان کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔‘
قبل ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شگفتہ اور شفقت کے بچوں کا جھگڑا ان پر توہین مذہب کا الزام لگانے والے امام مسجد کے بچوں سے ہوا، جس کے بعد انہوں نے اس جوڑے پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا اور الزام لگانے کے لیے ان کے فون کا استعمال کیا گیا۔ ان کی اپیل ہائی کورٹ میں مسلسل التوا کا شکار ہے اور اب تک اسے سنا نہیں گیا جو انصاف کے منافی ہے۔‘