امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آرایف) نے بدھ کو واشنگٹن میں جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ اسے ان ممالک کی فہرست سے نکال دے جہاں مذہبی آزادی کو خطرہ لاحق ہے تو پاکستان کو امریکی حکومت کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا چاہیے جس کے تحت پاکستان ملک میں توہین رسالت کے تمام قوانین کے خاتمے یا ان پر نظرثانی کرنے کی یقین دہانی کروائے گا۔
کمیشن نے کہا ہے کہ اگرچہ اس نے اپنی اس سال کی رپورٹ میں پاکستان کوان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی تھی جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے واشنگٹن کو خاص تشویش ہے، تاہم کمیشن نے دیکھا ہے کہ پاکستان نے اس دوران مذہبی اقلیتوں کے حوالےسے کئی مثبت اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔
کمیشن نے خاص طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی، وجیہہ الحسن کیس، سیالکوٹ میں شوالہ تیجا سنگھ مندر کو ہندوؤں اور کرتارپور راہداری کو سکھ برادری کے لیے کھولنے اور سپریم کورٹ کی حمایت یافتہ قومی کمیشن برائے اقلیت کے قیام کو سراہا۔
سال 2002 سے کمیشن ہر سال پاکستان کو Country of Particular Concern یا سی پی سی کی لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش کرتا آ رہا ہے تاہم امریکی محکمہ خارجہ (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) نے پہلی بار پاکستان کو 2018 کو اس فہرست میں شامل کیا۔
پاکستان سے امریکہ کی قومی سلامتی سے جڑے مفادات کے پیش نظر واشنگٹن نے دو سالوں تک پاکستان کو سی پی سی سےمستثنیٰ قراردیا۔ سعودی عرب اور تاجکستان کے بعد پاکستان وہ تیسرا ملک تھا جسے امریکہ نے اپنے مفادات کی خاطر 2019 میں اسشتنیٰ دیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: 'خارجہ پالیسی سے متعلق سفارشات کی روشنی میں کمیشن یہ سفارش کرتا ہے کہ عالمی مذہبی آزادی ایکٹ (ایفرا) کے تحت پاکستان اور امریکہ ایک ایسا معاہدہ کریں جس کے تحت حکومت پاکستان کو ایسے معنی خیز اقدامات اٹھانے کو کہا جائے جس سے مذہبی اقلتیوں کی حالت بہتر ہو۔ اس دوطرفہ معاہدے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے پاکستان میں مذہبی اقلتیوں کے حالات بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور خود پاکستان کو سی پی سی سے نکلنے کا راستہ واضح طور پرمعلوم ہو گا۔
کمیشن نے پاکستان سےسی پی سی سے نکلنے کے لیے کئی قلیل مدتی، درمیانی مدت اور طویل مدتی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
فوری اقدامات
کمیشن نے نادرا سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی شناختی کارڈ فارم میں شہریوں سے ان کے مذہب کے بارے میں سوال ختم کرے کیونکہ اس سے کمیشن کے مطابق تمام مذہبی گروہوں اور خاص کر احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کمیشن نے حکومت پاکستان سے کہا ہےکہ وہ احمدی برادری کی مذہبی کتب و دیگر مواد کی اشاعت پر پابندی ہٹا دے اور توہین رسالت سے متعلق تمام قوانین کا ازسرنو جائزہ لے کیونکہ یہ قوانین مبینہ طور پر غیرمسلموں کے خلاف ذاتی مفادات کی خاطر استعمال ہوتے ہیں۔
درمیانی مدت کے اقدامات
کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ توہین رسالت کے مقدمات میں انصاف کا تقاضہ پورا کیا جائے کیونکہ یہ قوانین خود پاکستان کے قانون میں دیے گئے شہری حقوق کے خلاف ہیں جو برابر حقوق کا وعدہ کرتے ہیں۔ نیز توہین رسالت کے مقدمات کی تجربہ کار پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں تحقیق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے مقدمات کئی سالوں تک چلتے رہتے ہیں اور عدلیہ کو چاہیے کہ ان مقدمات کا تیزی سے فیصلہ کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کمیشن کا کہنا ہے کہ جن افراد پر توہین رسالت کے مقدمات ہیں انہیں یہ حق دیا جائے کہ ان کی ضمانت ہوسکے اور جو لوگ اس طرح کے مقدمات میں غلط بیانی کرتے ہیں ان کے لیے سزا مقرر کی جائے۔
طویل مدتی اقدامات
کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان پینل کوڈ کے آرٹیکل 295اور298 اے کا خاتمہ کرے جس کے تحت توہین رسالت کو جرم قراردیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: 'توہین رسالت کے قوانین عالمی انسانی حقوق کے معیار سے متصادم ہیں۔ یہ درست ہےکہ ہرکسی کو حق حاصل ہے کہ توہین کرنے والے کے خلاف آوازاٹھائے لیکن اگر ایسے قوانین بنتے ہیں جو توہین پر سزائیں مقرر کرتے ہیں تو ایک طرح سے یہ مذہبی آزادی اور متعلقہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔'