پارلیمانی صحافیوں کے مطابق ڈی چوک پر 126 دن گزارنے والے عمران خان نے آج قومی اسمبلی میں نو ماہ کے دور حکومت میں 126 منٹس اسمبلی میں گزارے۔ انہوں نے اس دوران 05 منٹ کا خطاب بھی کیا۔
وزیراعظم کے پانچ منٹ کے خطاب نے قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) میں نشستیں بڑھانے کے لیے آئینی ترامیم کروانے میں اہم قرار ادا کیا۔
قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے متفقہ منظور کرلی گئی، کسی ایک رکن نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) کی موجودہ قومی اسمبلی میں اب 12 اور صوبائی اسمبلی میں 24 نشستیں ہوں گی۔ ترمیم کے حق میں 288 ارکان نے ووٹ دیا۔
پوری قوم فاٹا کے ساتھ کھڑی ہے۔ عمران خان
وزیراعظم نے کہا کہ خوش آئند ہے کہ ساری جماعتیں فاٹا کوقومی دھارے میں لانے کیلئے متفق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مانتا ہوں کہ صوبوں کو بھی معاشی مشکلات ہیں۔ فاٹا نے سب سے زیادہ دہشتگردی جھیلی۔ ہمیں بنگلہ دیش کے جیسی محرومی پیدا نہیں ہونے دینا چاہئے۔ بلوچستان میں احساس محرومی نہیں ہونا چاہئے۔ ہم فاٹا کو احساس دلائیں گے کہ پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ فاٹا میں جتنا نقصان ہوا وہ صرف خیبرپختونخوا پورا نہیں کرسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام صوبے این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد قبائلی علاقوں کے لیے دیں۔
ووٹنگ کے دوران ایوان کا ماحول
وزیراعظم عمران خان اپنے منسٹرز کے ساتھ گپ چپ لگاتے خوشگوار موڈ میں نظر آئے اور خلاف توقع اسمبلی کو زیادہ وقت بھی دیا۔ صدر پاکستان کی اہلیہ ثمینہ علوی بھی قومی اسمبلی کارروائی دیکھنے آئیں۔
ووٹنگ کے دوران وزیراعظم تحریک انصاف کی خواتین اراکین کے نرغے میں رہے اور اُن کے شکوے سنتے رہے۔ تمام اراکین ٹولیوں کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف نظر آئے۔
ایم کیو ایم کے اراکین اپنی نشستوں سے اُٹھ کر وزیراعظم عمران خان سے ملنے ان کی نشست تک آئے۔ جبکہ اپوزیشن بینچوں پر ن لیگ جمیعیت علما اسلام ایف اور ن لیگ خوش گپیاں کرتے رہے۔
محسن داوڑ اور علی وزیر حکومتی نشستوں کی جانب آئے اور شیریں مزاری کا شکریہ ادا کیا۔ ووٹنگ باکس تک محسن داوڑ پیپلز پارٹی کے اراکین کے ہمراہ گئے۔
فاٹا بل پر کچھ اراکین اسمبلی کا پہلے اعتراض اور پھر اتحاد:
قبائلی اضلاع (سابق فاٹا) میں قومی و صوبائی اسمبلی میں نشست بڑھانے کا بل رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے پیش کیا۔ اس سے قبل قانون و انصاف کمیٹی میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے نقطہ اُٹھایا تھا کہ اگر بل منظور ہو گیا تو جولائی میں ہونے والے انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔
مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق نے بھی بل پر تخفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات کا شیڈول جاری ہو چکا ہے۔ شیڈول کو چھیڑا نہ جائے ورنہ انتخابات متاثر بھی ہو سکتے ہیں۔ ’معلوم نہیں کہ بل کو پاس کرانے میں کیا جلدی ہے۔ مسلم لیگ ن قبائلی علاقوں کے شیڈول کو تبدیل کرنے کی حمایت نہیں کرتی۔‘ اس پر محسن داوڑ نے موقف اپنایا تھا کہ کہ اگر انتخابات میں تاخیر سے ہمارا نقصان ہو گا تو ہم اُس کے لیے تیار ہیں۔
آئینی ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع کیلئے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد6سے بڑھ کر12اورصوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد16سے بڑھ کر24 ہوجائی گی۔ لیکن آج قومی اسمبلی میں بل کو طویل بحث کے بعد جب ایوان میں پیش کیا گیا تو اس وقت 278 ارکان نے بل کی حمایت کی اور کسی نے بھی مخالفت نہ کی۔
شق وار منظوری میں 282 ارکان نے حمایت کی البتہ لابیز کی ڈویژن کے بعد 288 ارکان نے بل کی حمایت کی اور کسی نے مخالفت نہ کی- ترمیمی بل میں سینیٹ اورصدرمملکت کی منظوری کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔
قبائلی اضلاع سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری قبائلی اضلاع کے عوام پر ہونے والے مظالم کا کچھ مداوا کرے گا۔ اور جن پالیسیوں کی وجہ سے وہاں یہ سب ہوا وہ پالیسی بھی تبدیل ہونی چاہیے اور اُن پالیسیوں کے خلاف ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔
رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں جو نقصانات ہوئے ان کو بھی مثبت انداز میں حل ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن سے ہماری شکایتیں ہیں وہ اپنی جگہ موجود ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کا کام ہے کہ وہ سرحدوں پہ رہیں اور سیکیورٹی معاملات سول انتظامیہ کے سپردکریں ۔
فاٹا بل کی منظوری سے دو جولائی کو ہونے والے انتخابات پر کیا اثرات ہوں گے؟
جب فاٹا ترمیم کا معاملہ قانون و انصاف کی کمیٹی بھیجا گیا تھا تو سِیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب نے سابقہ فاٹا میں الیکشن شیڈول پر کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ کمیٹی کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے قبائلی علاقوں کی نشستوں پر الیکشن شیڈول کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت 16 نشستوں پر انتخاب ہونا تھے۔ الِیکشن کمیشن نے 02 جولائی کو سابقہ فاٹا میں انتخاب کا شیڈول اعلان کیا تھا۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئینی ترمیم ہونے کی صورت میں ازسر نو حلقہ بندیاں کرنا پڑیں گی۔
اگر آئینی ترامیم کر کے حلقہ بندیاں کی گئی تو الیکشن شیڈول تبدیل ہو جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کی تاریخ تبدیل کرنے کا اختیار ہمارے پاس موجود ہے۔