بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مغل روڈ پر پوشانہ کے مقام پر گاڑیوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رہ کر چیکنگ کروانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
مغل روڈ ایک تاریخی سڑک ہے جو مغل بادشاہوں کی آمدورفت کی وجہ سے مغل روڈ کہلائی جاتی ہے۔ اس سے قبل سفید پہاڑوں کی وجہ سے اس راستے کو نمکین راستہ کہا جاتا تھا۔ مغل بادشاہ اسی راستے سے لاہور اور سری نگر آیا جایا کرتے تھے۔ جلال الدین محمد اکبر پہلے مغل بادشاہ تھے، جنہوں نے 1586 میں کشمیر کو فتح کیا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد مغل روڈ منصوبے کو سب سے پہلے 1950 میں تجویز کیا گیا لیکن اس وقت اس کا نام مغل نہیں تھا۔ اس سڑک کو مغل روڈ کا نام شیخ محمد عبداللہ نے 1979 میں دیا۔
شیخ مرحوم اس وقت جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ تھے۔ اس منصوبے کے لیے اس وقت 18 کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ بعد ازاں 1981 میں اس منصوبے پر کام بھی شروع ہوا، لیکن بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی وجہ سے بالآخر 1985 میں کام روکنا پڑا تھا۔
2005 میں پی ڈی پی اور کانگریس کی مخلوط حکومت نے اس منصوبے کو حتمی منظوری دی تھی۔ اس منصوبے کو 2007 میں پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا لیکن کچھ تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر ایک سال کی تاخیر ہوگئی۔
2009 میں عمر عبداللہ نے اس کا افتتاح کیا اور 2010 میں عوام کے استعمال کے لیے مشروط اجازت دے دی گئی۔ 2012 میں اس سڑک کی ڈبل لین کا کام مکمل ہوا۔ مغل روڈ کی لمبائی بفلیاز تا شوپیاں 84 کلومیٹر ہے۔
اس سڑک پر شوپیاں، ہیرپور، ڈوبجیاں، زازنر، عالیا آباد، پیر کی گلی، چھتا پانی، پوشانہ، چندی مڑھ، بیحرام گلہ اور بفلیاز اہم مقامات ہیں۔
پیر کی گلی اس سڑک کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اس کو پیر پنجال پاس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ اتنی پرکشش ہے کہ آنے جانے والے مسافر یہاں ضرور رکتے ہیں۔ زیارت کے لنگر کے ستوؤں کے ساتھ نمکین قہوے کی چسکیاں لیتے ہیں۔ سیلفیاں بناتے ہیں اور تصاویر کھینچتے ہیں۔ یہ مقام سطح سمندر سے 3485 میٹر بلند ہے۔
سری نگر شاہراہ کے راستے پونچھ سے سری نگر 588 کلومیٹر کا راستہ ہے، جو مغل سڑک کی بدولت 120 کلومیٹر تک سمٹ گیا ہے۔ عرف عام میں اس سڑک کو جموں۔ سری نگر شاہراہ کا متبادل راستہ بھی کہا جاتا ہے۔
بھارت کی طرح جموں و کشمیر کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والی کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے سرحدی ضلعے پونچھ کے لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا رہا۔ دیگر سہولیات کی طرح صحت کے معاملے میں بھی سرحدی ضلع پونچھ کافی پیچھے ہے۔
طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر مریضوں کو شہر سے باہر لے جانے کی تجویز دی جاتی تھی۔ مریض 120 کلومیٹر دور شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سورا کی بجائے 250 کلومیٹر دور جموں میڈیکل کالج یا کم و بیش 550 کلومیٹر چندی گڑھ جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
کئی مریض تو راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ گذشتہ ماہ جموں و کشمیر کی سول سوسائٹی اور عوام کے پر زور مطالبے کے باوجود یہ سڑک ابھی تک مکمل طور پر نہیں کھل پائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عوام کے سوشل میڈیا پر احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد مئی کے آخری دنوں میں خانہ بدوشوں کے مال مویشیوں اور مریضوں کو اس پر سفر کی مشروط اجازت مل گئی لیکن عوام ابھی بھی اس کے کھلنے کے منتظر ہیں۔
مغل روڈ پر سب سے زیادہ تکلیف دہ عمل سکیورٹی کے نام پر سخت چیکنگ ہے۔ پوشانہ کے مقام پر چیکنگ کے لیے گاڑیوں کو گھنٹوں طویل قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مسافروں سے سکیورٹی اہلکار مختلف سوالات پوچھتے ہیں۔ نہ صرف شناختی کارڈ سکین کیا جاتا ہے بلکہ چوکی پر بائیو میٹرک بھی لیا جاتا ہے۔
مسافروں کو آئرس سکینر کیمرے کے سامنے کھڑا ہونے کو کہا جاتا ہے، پھر تصویر لی جاتی ہے۔ اتنی سخت سکیورٹی کو دیکھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ یہ دو ممالک کی سرحد ہے جس پر عوام کو کٹھن مراحل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
انتظامیہ کو عوام پر اتنے شبہات کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ دوسرے یہ کہ پوشانہ جگہ بھی اتنی خطرناک ہے کہ اگر اوپر سے کوئی پہاڑی کھسکے تو بچنا بہت مشکل ہے۔
اگر کوئی نیپال یا بھوٹان جا رہا ہے تو بھارت سے نیپال اور بھارت سے بھوٹان سرحدوں پر بھی اتنی سخت نگرانی نہیں ہے۔ متعدد بار عوام نے اس غیر ضروری چیکنگ کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروائے ہیں لیکن انتظامیہ اسے سکیورٹی کا معاملہ قرار دیتی ہے۔
اس سخت چیکنگ سے خطے کے لوگوں کو یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ریاست ان پر اس طرح اعتماد نہیں کرتی جس طرح ریاست کے دیگر شہریوں پر کرتی ہے۔