19 سالہ مہک پرویز کا تعلق پاکستان کے شہر فیصل آباد سے ہے۔ گذشتہ سال 19 نومبر کو ان کی شادی ایک چینی لڑکے سے ہوئی جس کے بعد وہ انہیں لے کر لاہور آ گیا۔
مہک ڈیڑھ ماہ تک ان کے ساتھ رہیں، لیکن پھر اصلیت معلوم ہونے کے بعد ان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں۔ انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مہک نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی۔
مجھے ایک رشتے دار کی شادی (ان کی شادی بھی چینی لڑکے سے ہی ہوئی) پر پسند کیا گیا۔ میرے والد رکشہ ڈرائیور ہیں اور ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ والدین کا معاشی بوجھ بانٹنے کے لیے مجھے لگا کہ ایک چینی لڑکے سے شادی کرکے چین چلے جانا بہتر ہو گا۔ اس سے ہمارے مالی حالات بھی سدھر جائیں گے اور مستقبل بھی بن جائے گا۔
ویسے تو میں فیصل آباد میں ایک بیوٹی پارلر میں گذشتہ چار سالوں سے کام کر رہی تھی اور مجھے بتایا گیا کہ لڑکا بھی میک اپ مصنوعات بنانے والی کمپنی میں کام کرتا ہے، مگر اس کی ٹانگ میں کچھ خرابی ہے۔
شادی پر مجھے صرف جوڑے کے لیے 20 ہزار روپے دیے گئے جبکہ شادی ہال کے پیسے چینی شوہر کے ایجنٹ انس بٹ نے ادا کیے۔ شادی کے لیے بہت جلدی کی گئی یہاں تک کہ میرے والد کو شادی کی تقریب میں اپنا پادری بلانے کا بھی وقت نہیں دیا گیا۔ پادری بھی میرے شوہر کی جانب سے لایا گیا، جس کا نام زاہد تھا اور وہ اس وقت پولیس کی حراست میں ہے۔
خیر میری شادی ہو گئی اور شادی کے پہلے روز ہی مجھ پر انکشاف ہوا کہ شوہر کے جسم کا بایاں حصہ پوری طرح مفلوج ہے اور یہ ان کی تیسری شادی ہے۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ میرا شوہر مسیحی نہیں بلکہ ان کا تو شاید کوئی مذہب نہیں۔ مجھے شادی کے چند دن میں ہی اندازہ ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
میں شادی کے بعد لاہور آ گئی جہاں ڈیوائن گارڈن کے علاقے میں ان چینی شہریوں نے تین گھر لے رکھے تھے۔ ایک گھر میں نئی دلہنیں اور کچھ چینی لوگ تھے جبکہ سامنے والے دوسرے گھر میں صرف چینی لڑکے رہتے تھے۔
میں جس گھر میں رہ رہی تھی اس میں کُل آٹھ لڑکیاں تھیں۔ ان میں سے کچھ سہیلیاں تھیں اور کچھ رشتہ دار۔ ان کی ہیڈ کینڈس نے، جو خود بھی چینی تھی، ان کا وی چیٹ پر اکاؤنٹ بنایا کیونکہ چین میں واٹس ایپ نہیں چلتا اور انہیں اس گروپ میں شامل کیا جس میں شادی کے بعد چین پہنچ جانے والی دیگر لڑکیاں بھی موجود تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان لڑکیوں سے بات چیت کے دوران مجھے پتہ چلا کہ وہ چین میں بہت برے حالات میں ہیں۔ وہاں انہیں مارا جاتا ہے، ایسی ادویات دی جاتی ہیں جس سے وہ جلد حاملہ ہو سکیں کیونکہ یہ لوگ نومولود بچوں کو فروخت کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بھی فوری طور پر اپنے چینی شوہر سے الگ ہونے کا مشورہ دیا جس کے بعد میرا شک اور بڑھ گیا۔ ہم ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ پاتے تھے، اس لیے گوگل ٹرانسلیشن ایپ کے ذریعے تھوڑی بہت بات کرتے تھے۔ مجھے اپنے شوہر کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ البتہ ان کا نام میرے شناختی کارڈ پر لکھا ہوا ہے۔ میں اپنے شوہر کو ’لمبو‘ کہتی تھی کیونکہ ان کا قد بہت لمبا تھا۔
مجھے جب معلوم ہوگیا کہ یہ سب فراڈ ہے تو میں نے شادی کرانے والے شخص انس بٹ سے کہا کہ میں واپس جانا چاہتی ہوں اور طلاق چاہتی ہوں۔ انس نے اس پر مجھے ڈرایا دھمکایا اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا مگر میں وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔
میرا مطالبہ ہے کہ جتنی بھی لڑکیاں اس وقت چین گئی ہیں انہیں واپس لایا جائے اور اس کام کو روکا جائے۔