کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے صوبے اونٹاریو میں ایک پاکستانی نژاد خاندان کے چار افراد کے قتل کو ’دہشت گرد حملہ‘ قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر اعظم ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز میں ایک تقریر کے دوران کہا: ’یہ قتل کوئی حادثہ نہیں تھا۔ یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جو ہماری کمیونٹیز میں سے ایک کے دل میں پنپنے والی نفرت کا نتیجہ تھا۔‘
صوبے اونٹاریو کے شہر لندن میں اتوار کی رات ایک 20 سالہ نوجوان نے پانچ افراد کو اپنے پک اپ ٹرک سے کچل دیا تھا، جس کے نتیجے میں چار افراد چل بسے جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا۔ حملہ آور 20 سالہ نیتھانیئل ویلٹ مین پولیس کی حراست میں ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ خاندان پر حملے کی وجہ ان کی مذہبی شناخت تھی۔
متاثرہ خاندان کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے میں زخمی ہونے والا نو سالہ بچے کا ہسپتال میں علاج جاری ہے جہاں وہ صحت یاب ہو رہا ہے۔
ایسوسی ایڈڈ پریس کے مطابق کینیڈا کی پارلیمان میں منگل کو جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ اس وبا کے دوران بہت سے کینئڈین شہری شام کے وقت چہل قدمی کے لیے نکلتے ہیں اس مگر ہر رات کی برعکس ’یہ خاندان واپس گھر نہیں آیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہم سب امید کرتے ہیں کہ اس چھوٹے بچے کے زخم جلد ٹھیک ہو جائیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ اس بزدلانہ اسلامو فوبیا پر مبنی حملے کی وجہ سے اسے طویل عرصے تک دکھ، ناسمجھی اور غصے کے ساتھ زندگی گزارنا ہو گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس ملک میں نسل پرستی اور نفرت نہیں تو انہیں میں یہ کہوں گا: ہسپتال میں اس بچے کو ہم اس ترتشدد واقعے کی کیا وضاحت دیں گے؟ ہم کیسے خاندانوں سے نظریں ملا کر کہہ سکتے ہیں کہ اسلامو فوبیا حقیقت نہیں؟‘
’ہم نفرت کے کسی بھی روپ کو دلوں میں بسنے کا مومقع نہیں دے سکتے کیونکہ اس کے نتائج سنگین ہیں۔ ہم نے ایسا کرائسٹ چرچ میں دیکھا، دنیا کی دوسری جگہوں پر دیکھا اور اب اپنے گھر میں بھی دیکھ لیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’میں چاہتا ہوں کہ کینیڈا کے تمام لوگ جان لیں کہ جب ہم میں سے کسی کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ ہم سب کا نقصان ہے۔ ہمیں نسل پرستی اور دہشت گردی کو مسترد کرنے کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور ہمیں ملک میں استحکام اور تنوع کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔‘
متاثرین کے رشہ داروں نے مارے جانے والوں کی شناخت 46 سالہ سلمان افضل، ان کی 44 سالہ اہلیہ مدیحہ، 14 سالہ بیٹی یمنیٰ اور 74 سالہ خاتون جو سلمان افضل کی والدہ ہیں، کے طور پر کی ہے۔ ہسپتال میں زیرعلاج بچے کا نام فائز بتایا گیا ہے۔
روئٹرز کے مطابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے منگل کی شام مرحوم خاندان کی یاد میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی جس میں ہزاروں افراد موم بتیوں، پھولوں اور کارڈز کے ساتھ شریک ہوئے۔
لندن کی مسجد کے امام بلال راہل نے اس موقع پر کہا: ’یہ ہمارا شہر ہے۔ کبھی کسی کو آپ کی رنگ، نسل، عقیدے یا جائے پیدائش کی بنیاد پر ایسا محسوس نہ کروانے دیں۔ یہ ہمارا شہر ہے اور ہم کہیں نہیں جائیں گے۔‘
اس موقع پر مسجد کے باہر پھول رکھنے کے بعد سوگواران سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم ٹروڈو نے کہا کہ ان کی حکومت کارروائی کرے گی تاہم انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔
ان کا کہنا تھا: ’میں کینیڈا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو کہتا ہوں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں جو تین نسلوں کے ان کے خود کے ہی شہر میں قتل ہونے پر غم و غصے کو کم کرسکیں۔ ایسے الفاظ نہیں جو اس خاندان کے درد اور اس کمیونٹی کے غصے کو کم کرسکیں۔ ایسے الفاظ نہیں جو اس چھوٹے سے لڑکے کے مستقبل کو ٹھیک کرسکتے ہیں، جس کا مستقبل چھین لیا ہو۔ مگر یہ جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ کینیڈا کے تمام افراد اس غم میں آپ کے ساتھ ہیں۔ آج رات اور ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ ایک شیطانی فعل تھا۔ لیکن آج یہاں کے لوگوں کی روشنی اور افضل کے خاندان کی زندگی کی روشنی ہمیشہ تاریکی کو مٹاتی رہے گی۔‘
کینیڈا کے حزب اختلاف کے رہنما ایرن او ٹول ، این ڈی پی کے رہنما جگمیت سنگھ سمیت دیگر سیاسی رہنما اور اونٹاریو کے پریمیر ڈگ فورڈ بھی اس تقریب میں شریک تھے۔
اس حملے کے نتیجے میں ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے اور لندن کی طرح ٹورنٹو، وینکوور اور کینیڈا کے دوسرے شہروں میں بھی اس قسم کی تعزیتی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس حملے کی بھر پور مذمت کی جا رہی ہے۔ ’آوور لندن فیملی‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ منگل کی شام تک دس ہزار سے زیادہ پوسٹس کی گئیں۔