’میں نے پولیس کو بتایا بھی کہ میں آرٹسٹ ہوں لیکن اس کے باوجود وہ مجھے پولیس وین میں بٹھا کر تھانے لے گئے۔‘ یہ کہنا تھا ابو ذر مادھو کا جو ایک مصنف، فنکار، اداکار اور سنگت تھیٹر کے مرکزی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ معروف نجی سکول میں پرفارمنگ آرٹس کے استاد بھی ہیں۔
چند روز قبل مادھو کو پولیس رات گئے آوارہ گردی کے الزام میں سڑک سے اٹھا کر تھانے لے گئی اور ان کے خلاف ’کلندرا‘ لکھ ڈالا۔
ابوذر مادھو اس رات کی کہانی انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں اس رات تین بجے کلمہ چوک پر کھڑا رکشے کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے گھر لوٹنا تھا۔ پولیس کی گاڑی آکر میرے پاس رکی اور مجھ سے پوچھا کہ میں وہاں کیا کر رہا ہوں اور کہاں سے آرہا ہوں؟‘
میں نے بتایا کہ ’میں ایک دوست کی طرف گیا تھا اور اب گھر جانے کے لیے سواری کے انتظار میں ہوں۔ پھر انہوں نے مجھ سے شناختی کارڈ مانگا جو میں نے دکھا دیا۔ انہوں نے مجھ سے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کا کہا۔ کیونکہ انہیں میری تصدیق کرنی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے تصدیق تو کر لی ہے۔‘
مادھو کے مطابق پولیس والے کہنے لگے کہ ’نہیں، تصدیق تھانے چل کر ہوگی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ میرا بیگ چیک کریں اور جیبیں چیک کرلیں لیکن وہ مجھے اس طرح کیسے تھانے لے کر جا سکتے ہیں؟ اتنی دیر میں پولیس والے نے گاڑی سے ایک اور سپاہی کو باہر نکلنے کا کہا یہ دیکھ کر میں خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
پھر وہ مجھے ماڈل ٹائون تھانے لے گئے لیکن راستے میں انہوں نے ایک مزدور اور ایک سکیورٹی گارڈ جو پیدل چل رہے تھے انہیں بھی گاڑی میں بٹھایا لیا۔ اب ہم تین تھے۔ پولیس سٹیشن پہنچ کر انہوں نے باقی دو کو تو فوراً ایک کمرے میں بند کر دیا۔ میرا بیگ اور جیبیں وہاں جا کر چیک کی گئیں جن میں کوئی قابل اعتراض شے برآمد نہیں ہوئی۔'
مادھو کہتے ہیں کہ انہوں نے پولیس والے کو بتایا کہ وہ ایک آرٹسٹ ہیں پرفارم بھی کرتے ہیں لیکن اے ایس آئی سیف اللہ بار بار مجھے آکر ایک ہی بات کہتا تھا: ’اپنا حلیہ دیکھا ہے تم نے؟ یہ بال کیوں بڑے ہیں تمہارے؟ تم نے چنری کیوں پہنی ہوئی ہے؟ ہاتھ میں کڑا کیوں پہنا ہے؟‘
ابوذر مادھو کا کہنا ہے کہ میں نے پولیس سے کہا کہ ’یہ میرا ذاتی معاملہ ہے آپ نے تصدیق کرنی تھی وہ ہوگئی آپ اب مجھے یہاں تھانے میں نہیں رکھ سکتے یہ زیادتی ہے۔ اس وقت تھانے میں موجود دیگر سپاہیوں نے بھی اے ایس آئی سے کہا کہ وہ مجھے جانے دیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔‘
بقول مادھو پھر انہیں بھی اسی کمرے میں بند کر دیا جہاں انہوں نے ان دو لوگوں کو بند کیا تھا۔ مادھو جب کمرے میں قید تھے تو اس وقت تک ان کا موبائل فون ان کے پاس تھا۔ انہوں نے فوری اپنے ایک دوست کو پیغام بھیجا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر بھی ایک سٹیٹس کے ذریعے بتا دیا کہ وہ اس وقت کہاں اور کن حالات میں ہیں۔
مادھو کے مطابق 'اس کے بعد تھانےوالوں کو میرے لیے فون آنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے مجھے کمرے سے نکالا اور اپنے دفتر میں بٹھا لیا کچھ تھوڑی بہت بات کر کے واپس اسی کمرے میں بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا دوست تھانے پہنچا لیکن میرا کلندرا کٹ چکا تھا۔ انہوں نے مجھ پر آوارہ گردی کے قانون کے تحت دفعات لگائی تھیں۔ انہوں نے میرے دوست سے کہا کہ اب وہ مجھے کہیں نہیں جانے دے سکتے۔ اب مجھے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جا ئے گا۔ اس کے بعد ہی میری رہائی کا فیصلہ ہوگا۔'
مادھو نے بتایا کہ 'اس کے بعد پولیس والوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ میں نے فیس بک پر اپنے بارے میں لکھ دیا ہے جس کے بعد انہوں نے مجھے باقاعدہ حوالات میں بند کر دیا۔ اگلی صبح دس بجے کے قریب میرے وکیل دوست تھانے پہنچے اور میں ان کے ساتھ مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو گیا۔ اور انہوں نے مجھے رہا کرنے کا حکم دیا۔'
مادھو کے وکیل نے ان دو لوگوں کی بھی مدد کی جو ان کے ساتھ تھانے آئے تھے۔
مادھو کہتے ہیں کہ 'مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر انہوں نے ہمیں پکڑا کیوں جس پر اے ایس آئی سیف اللہ کا کہنا تھا کہ تم لوگ آوارہ گرد ہو۔ میں نے کہا ہم تینوں تو اپنے اپنے گھر جا رہے تھے تو پولیس والے کہنے لگے کہ تم لوگ رات کے تین بجے سڑک پر کیوں موجود تھے؟ یہ کیسا قانون ہے جو ہے ہی صرف پیدل چلنے والوں کے لیے؟' مادھو کہتے ہیں کہ 'پولیس والوں نے مجھ سے کہا پیدل چلنے والے ہی تو اصل مجرم ہوتے ہیں اور وہی تو ڈکیتیاں کرتے ہیں۔'
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے تھانہ ماڈل ٹاؤن کے ایس ایچ او نعیم اللہ سے بات کی جن کا کہنا تھا ابوذر پر کریمنل پروسیجر کوڈ 1898(سی آر پی سی) ضابطہ فوجداری کی دفعات 55 اور 109 کا اطلاق کر کے کلندرا کاٹا گیا۔
کلندرا ایف آئی آر نہیں ہوتی:
ایس ایچ او نعیم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ’جن لوگوں پر ایف آئی آر نہ ہو تو سی آر پی سی کے کچھ سیکشنز میں پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ ہم عدالت کو ایک بیان لکھ کر بھجواتے ہیں کہ اس شخص کو ہم نے شک کی بنیاد پر پکڑا ہے۔ ہم اسے آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں جس کے بعد عدالت پر منحصر ہوتا ہے۔ عدالت کبھی اس شخص کو چھوڑ دیتی ہے اور کبھی ضمانت نامہ لے کر اسے پابند کر دیتی ہے۔ یہ ایک قانونی عمل ہے جسے اپنایا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کلندرا تب سے رائج ہے جب سے سی آر پی سی بنا ہے۔ ایف آئی آر اور چیز ہوتی ہے اور کلندرا مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مختلف تھانوں میں مختلف تعداد میں کلندرے لکھے جاتے ہیں اور انہیں سی آر پی سی کی دفعہ 55، 109 اور 101 کے تحت لکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر کلندرے ان لوگوں کے لکھے جاتے ہیں جو آوارہ گردی کے الزام میں پکڑے جاتے ہیں یا ایسے افراد جو کسی علاقے کے رہنے والے نہ ہوں اور ان کی وہاں موجودگی کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔ ان کو پکڑ کر کلندرا لکھا جاتا ہے اور انہیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔'
سی آر پی سی 1898 کی دفعات 55 اور 109 کے تحت اگر کوئی شخص کسی پولیس سٹیشن کی حدود میں یا کسی مجسٹریٹ کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقے میں اپنی موجودگی کو مشتبہ طریقے سے چھپانے کی کوشش کر رہا ہو یا اس علاقے میں اپنی موجودگی کی کوئی وجہ نہ بتا سکے تو اس کے خلاف ان دفعات کے تحت آوارہ گردی کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایف آئی آر نہیں بلکہ کلندرا ہوتا ہے اور یہ دفعات ناقابل دست اندازی پولیس ہوتی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ پولیس اس شخص کو حراست میں نہیں رکھ سکتی بلکہ اسے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے اور مجسٹریٹ فیصلہ کرتا ہے کہ اس شخص کو رہا کرنا ہے یا نہیں۔
کریمنل لا ایکسپرٹ فرہاد علی شاہ کہتے ہیں کہ 'جرائم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک قابل دست اندازی پولیس جس میں پولیس کو کسی کو گرفتار کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس میں پولیس ایف آئی آر کاٹ دیتی ہے۔ دوسرا جرم ناقابل دست اندازی پولیس ہے۔ اس میں پولیس کسی کو گرفتار نہیں کر سکتی نہ ہی ایف آئی آر کاٹ سکتی ہے۔ وہ عدالت کو کلندرا بھجواتی ہے۔ عدالت خود ہی ملزم کو طلب کرلیتی ہے اور اس کا ٹرائل کرتی ہے۔ اس میں پولیس مجسٹریٹ سے اجازت لیے بغیر کسی کو حوالات میں بند نہیں کر سکتی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ 'قمار بازی ایکٹ یا آوارہ گردی ایکٹ یہ چھوٹے چھوٹے سے ایکٹ ہیں جو ناقابل دست اندازی پولیس ہوتے ہیں ان میں پولیس نے کلندرا ہی دینا ہوتا ہے۔'
ایک سینئیر پولیس آفیسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'آوارہ گردی کا کلندرا ان لوگوں کے خلاف لکھا جاتا ہے جو کسی جگہ اپنی موجودگی کا جواز پیش نہ کر سکیں۔ زیادہ تر پیدل چلنے والوں کو آوارہ گردی کے تحت اس لیے پکڑ لیا جاتا ہے کیونکہ وہ یا تو چل رہے ہوتے ہیں یا ساکت ہوتے ہیں اس لیے ان کو روکا جا سکتا ہے۔ گاڑی یا موٹر سائیکل والے چونکہ تیزی سے جارہے ہوتے ہیں اس لیے شاید زیادہ پیدل چلنے والے پکڑ جاتے ہیں۔ لیکن گاڑیوں وغیرہ پر سوار افراد کو بھی روکا جاتا ہے اور اگر وہ اس وقت وہاں موجودگی کا جواز پیش نہ کر سکیں تو ان کے خلاف بھی کرروائی کی جاتی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر کسی بھی شخص کا حلیہ مشکوک ہے تو پولیس کسی کو بھی چیک کر سکتی ہے اور اسے حلیے کی بنا پر سی آر پی سی کے سیکشن 54 کے تحت حراست میں لے کر تفتیش کر سکتی ہے۔'
پولیس عہدیدار کے مطابق 'سی آر پی سی انگریز دور کا بنا قانون ہے جس کا مقصد تھا کہ ایک سرویلینس کا سسٹم قائم کیا جائے۔ تاکہ اگر کسی علاقے میں کوئی اجنبی شخص پایا جارہا ہے تو اس کی وہاں موجودگی کی وجہ جانی جا سکے۔ اسی پر چیک رکھنے کے لیے یہ ایک ٹول آف سرویلینس بنایا گیا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کل کے دور میں جہاں شہروں میں اتنے انجان لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ مختلف علاقوں یا شہروں سے سفر کر کے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کا خطرہ بھی موجود ہے۔ کبھی کبھار آپ کے پاس کوئی وجہ نہیں ہوتی لیکن بندہ مشکوک ہوتا ہے اور وہ جواز پیش نہیں کر پا رہا ہوتا اس لیے پھر اس ٹول کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اس کا شکار معصوم افراد کو نہیں ہونا چاہیے۔‘
ان کے مطابق 'اگر پولیس والے ایسا کر رہے ہیں تو اس کے لیے پورا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ جس کے تحت ایس پی ڈسپلن، سی سی پی او وغیرہ کو درخواست دے کر کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ اگر بندے نے اپنی کسی جگہ موجودگی کا جواز پیش کر دیا ہے کہ وہ کام سے واپس آرہا ہے اور اس کے پاس اس کے شناختی دستاویزات موجود ہیں جن کی تصدیق بھی ہوگئی ہے اس کے باوجود اگر کسی کو حراست میں لیا گیا ہے تو اس پولیس والے کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔'