برطانوی دور میں نہروں پر بنی آٹے کی چکیاں ’جرندے‘ جدید مشینیں آنے کے بعد زوال پذیر ہیں۔
جرندے یا آٹے کی چکی لگنے سے پہلے لوگ گھروں میں ہاتھوں کے ذریعے گندم اور دوسرے غلوں کو پیستے تھے جو مشکل اور وقت طلب کام تھا۔
تاہم انگریز دور حکومت میں ضلع مردان اور ملاکنڈ ایجنسی میں 1876 میں بننے والی نہر لوئر سوات اور 1914 میں بننے والی نہر اپر سوات پر مختلف جہگوں پر 22 واٹر ملز یعنیٰ پانی پر چلنے والی آٹے کی چکیاں بنائی گئیں۔
پشتو زبان میں یہ چکیاں ’جرندہ‘ کہلاتی ہیں اور جو چکیاں انگریزوں کے دور میں لگیں آج تک ان میں کوئی اضافہ ہوا اور نہ ہی ان کی مرمت ہوئی۔
پہلے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ دوردراز علاقوں سے بھی لوگ یہاں پر گندم اور دوسرے غلے پسوانے کے لیے آتے تھے۔
تاہم اب چلتے پھرتے ٹریکٹروں پر نصب چھوٹی مشینوں کی وجہ سے لوگ ان چکیوں کو زیادہ استعمال نہیں کر رہے۔
آلو قاسمی گاؤں میں چھ چکیاں تھیں جن میں سے تین چل رہی ہیں جبکہ باقی تین بند پڑی ہیں۔
جرندے میں کام کرنے والے مزدور نواب شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ یہاں 20 سال سے کام کر رہے ہیں۔
’پہلے یہاں بہت رش ہوتا تھا۔ اب یہ زوال کی طرف جا رہی ہے کیونکہ گھرگھر گاؤں گاؤں میں نئی چکیاں چل رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ٹریکٹر والی چکی سے بہت اثر پڑا ہے، اب ان کے پاس کوئی دانے نہیں لاتا۔ ’ان دنوں گندم کا سیزن چل رہا ہے لیکن ہم فارغ بیٹھے ہیں۔‘
60 سالہ نواب شاہ نے کہا کہ انہیں تاریخ تو یاد نہیں لیکن بزرگ بتاتے ہیں کہ اس جرندے کو لگے 110 سال ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انگریزوں کی دور میں بنی اس چکی کا حکومت کو کوئی خیال نہیں، محکمہ زراعت والے پوچھتے تک نہیں اور نہ ہی ان کی مرمت کے لیے کوئی فنڈز دستیاب ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نواب شاہ نے بتایا کہ سخاکوٹ اور کاٹلنگ میں چار چکیاں ہیں۔ اسی طرح مردان شہر، تخت بھائی اور آس پاس علاقوں میں بہت سی چھوٹی چھوٹی ندیوں پر ایک ایک دو دو جرندے ہیں لیکن وہ بھی زوال پذیر ہیں اور ان سے وابستہ لوگ پریشان۔
انہوں نے بتایا کہ ان چکیوں کے لیے پہلے پتھر کابل سے آتے تھے لیکن اب پشاور سے آتے ہیں جو بیکار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چکی میں استعمال ہونے والا اصل پتھر بہت مہنگا ہے، جس کی قیمت 30 سے 40 ہزار روپے تک جوڑا ہے، اس کے برعکس عام پتھر 10، 15 ہزار روپے میں مل جاتا ہے۔
مردان کی تحصیل کاٹلنگ میں موجود سرکاری جرندے میں کام کرنے والے 70 سالہ ایمل خان کے مطابق وہ پچھلے 30 سال سے اس جرندے میں کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جرندے میں پسا آٹا جدید مشینری سے پسے آٹے کی نسبت زیادہ مزیدار ہوتا ہے لیکن اب ٹریکٹر اور مشینوں کی وجہ سے لوگ کم آتے ہیں۔