خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے سنت سنگھ اپنے علاقے میں ایک منی بینک کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
لوگ ان کے پاس اپنی نقد رقم اور دوسری قیمتی اشیا امانت کے طور پر رکھواتے ہیں اور سنت سنگھ بھی اسے لوگوں کا ان پر اعتماد سمجھ کر بغیر کسی نفع نقصان کے ان کی امانتیں اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت واپس کر دیتے ہیں۔
50 سالہ سنت سنگھ بونیر کے علاقے پیر بابا میں کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کی ایک دکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے ان کے آباواجداد پیر بابا آئے ہیں تب سے ان کا خاندان تجارت کا کام کررہا ہے اور ان کی طرح علاقے میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی اور لوگ بھی کپڑے کا کام کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’پیر بابا بونیر میری لیے ایک چھوٹی سی جنت کی مانند ہے اور یہاں کے لوگ اس جنت میں میرے فرشتے ہیں۔ ہم یہاں بہت ہی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کی دکان تو چھوٹی سی ہی ہے مگر یہاں کے لوگوں کا ان پر اعتماد بہت بڑا ہے۔
وہ اپنی برادری کے مشران میں سے ہیں اور اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ گردوارے کی خدمت بھی میں وقت صرف کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنت سنگھ بتاتے ہیں کہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے خاندان میں پیر بابا میں کاروبار شروع کیا۔ ’جب ہمارے بزرگ یہاں پر آئے اس وقت یہاں بینکنگ کا نظام نہیں تھا، تو لوگ تھوڑے تھوڑے سے پیسے لے کر آتے تھے اور وہ ہمارے بزرگوں کے پاس جمع کرواتے تھے۔ اگر کسی وقت بھی ضرورت پڑ جاتی تو وہ ہمارے بزرگ، جو ہر وقت دستیاب ہوتے تھے، ان کو واپس کر دیتے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے چلا آرہا ہے اور اب میرے پاس لوگوں کی کافی رقم امانت کے طور پر پڑی ہوئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پہلے تو ہم روپوں کے اندر کاغذ ڈال کر رکھ دیتے تھےکہ یہ فلاں کی رقم ہے مگر اب ہم اپنے پاس لکھ بھی دیتے ہیں کہ کس کی کتنی امانت ہے۔
سنت سنگھ کا کہنا تھا کہ امانتوں کے رقم بڑھ چکی ہے کیونکہ پرانے وقتوں میں کسی کے پاس سو روپے ہوتے تھے تو بڑی بات ہوتی مگر اب تو باتیں لاکھوں میں آگئی ہیں تو اسی حساب سے امانتوں کی قیمت بڑھ چکی ہے۔
ان کے بقول ان کا زیادہ تر کاروبار مسلم برادری کے ساتھ ہے اور امانتیں بھی زیادہ تر مسلم برادری ہی کی سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ’میرے پاس زیادہ تر مسلمان بھائی اپنی امانتیں رکھواتے ہیں جس میں زیادہ تر مضافات میں جو لوگ رہتے ہیں، جیسے اردگرد کے پہاڑی علاقوں میں، تو ان کے لیے آسان ہوتا ہے کہ جس وقت بھی چاہیں، رات ہو یا دن، آ کر اپنی چیز لے لیں۔‘
پیر بابا پاچا کلے کے حبیب خان نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیر بابا میں رہنے والے سکھ مقامی ہیں، ان کی پیدائش ہی یہاں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’لوگ ان کے پاس اس لیے امانت رکھ دیتے ہیں کہ جس وقت بھی چاہے واپس لے سکتے ہیں، ان کی طرف سے انکار نہیں ہوتا۔ ہمیں ان پر مکمل اعتماد ہے اور ان کے ساتھ باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارہ بھی بہت زیادہ ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’کافی عرصے سے میں دیکھتا آ رہا ہوں کہ لوگوں کا ان پر کافی بھروسہ ہے اور لوگ ان کے دکانوں سے سودا بھی اچھا لیتا ہیں۔ عام دکانداروں کی نسبت ان کا سودا اچھا اور سستا بھی ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کو سودا ادھار بھی دیتے ہیں اور بعد میں تنگ بھی نہیں کرتے اور پیسوں پر نہ ہم سود دیتے ہیں اور نہ ان لوگوں نے ابھی تک مطالبہ کیا ہے۔‘