خیبر پختونخوا حکومت نے 'عوام کو ریلیف دینے کی غرض' سے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبے بھر میں 2500 سی سی سے کم کی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس صرف ایک روپیہ مقرر کی ہے۔ تاہم اس نئے فیس کا اطلاق کمرشل گاڑیوں پر نہیں ہو گا۔
اس بات کا اعلان صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے سال 22-2021 کے بجٹ تقریر میں کیا۔ ان کی بجٹ تقریر کے مطابق صوبے میں رجسٹرڈ ہونے والے 2500 سی سی سے کم گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس صرف ایک روپیہ ہوگی جبکہ 2500 سی سی سے زائد گاڑیوں کی رجسٹریشن گاڑی کے قیمت کے ایک فیصد برابر ہوگی( یعنی دس لاکھ روپے کی گاڑی کی رجسٹریشن فیس دس ہزار روپے ہوگی)۔
اس سے پہلے رجسٹریشن فیس کتنی تھی؟
خیبر پختونخوا محکمہ ایکسائز کے قوانین کے مطابق صوبے میں چلنے والے تمام گاڑیاں خریداری کے 60 دنوں کے اندر محکمہ ایکسائز کے پاس رجسٹر کروانا لازمی ہیں۔ محکمہ ایکسائز کے پرانے فیس شیڈول کے مطابق 1300 سی سی سے 2500 سی سی تک گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس گاڑی کی قیمت کے دو فیصد کے برابر تھی۔
اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ اگر کوئی گاڑی دس لاکھ روپے کی ہے، تو اس کی رجسٹریشن فیس 20 ہزار روپے تھی جو اب صرف ایک روپیہ ہوگی۔
اسی طرح محکمہ ایکسائز کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق 1300 سی سی سے کم کی گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس گاڑی کی قیمت کے ایک فیصد برابر ہوگی یعنی اگر دس لاکھ روپے کی کوئی گاڑی ہے ، تو اس کی رجسٹریشن فیس دس ہزار روپے ہوگی لیکن اب اس فیس کو صرف ایک روپیہ مقرر کیا گیا ہے۔
اگر 2500 سی سی سے زائد گاڑیوں کی بات کی جائے، تو نئی فیس کے اطلاق سے پہلے 2500 سی سی سے زائد کی گاڑی کی رجسٹریشن فیس گاڑی کی قیمت کی چار فیصد کے برابر تھی یعنی دس لاکھ روپے کی گاڑی کی رجسٹریشن فیس 40 ہزاروپے تھی ۔ اس فیس کو اب گاڑی کی قیمت کا ایک فیصد مقرر کیا گیا ہے یعنی اس فیس میں 50 فیصد تک کمی کی گئی ہے۔
اس ریلیف سے کون سی گاڑیاں فائدہ اٹھا سکتی ہیں؟
حکومت کی جانب سے رجسٹریشن کی فیس ایک روپیہ مقرر کرنے کے ریلیف سے صرف نجی گاڑیاں استعمال کرنے والے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان گاڑیوں میں موٹر کار، پک اپ وین، یا ایسی کوئی بھی گاڑی شامل ہے جو 2500 سی سی سے کم ہو جبکہ یہ ریلیف برآمد شدہ اور پاکستان میں بننے والے دونوں گاڑیوں کی رجسٹریشن پر لاگو ہو گا۔
آج کل پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو 2500 سی سی سے کم کی گاڑیوں میں چھوٹی گاڑیوں سمیت کچھ لگژری گاڑیاں بھی شامل ہیں۔ جیسا کہ ہنڈا کی ویزل گاڑی جو 1500 سی سی کی ہے۔ اسی طرح ہنڈا ہی کی سوک گاڑی 1800 سی سی کی ہے۔ جبکہ زیادہ تر جاپانی سیڈان گاڑیاں 1500 سی سی سے لے کر 1800 سی سی تک ہیں۔
اسی طرح پاکستانی گاڑیوں کی بات کی جائے تو ٹویوٹا کرولا کی زیادہ تر گاڑیاں جس میں آج کل یارس، اٹلس، گرانڈی سمیت جی ایل آئی پاکستان کے سڑکوں پر آپ کو نظر آئیں گی۔ یہ تمام گاڑیاں 1300 سی سی سے لے کر 1800 سی سی تک ہیں اور ان کے مالکان اس ریلیف سے فائڈہ اٹھا سکیں گے۔
فیس کو ایک روپیہ کیوں کیا گیا؟
خیبر پختونخوا محکمہ ایکسائز کے ڈائریکٹر رجسٹریشن سفیان حقانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فیس کو ایک روپیہ تک کم کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس صوبے کے لوگ یہاں پر ہی اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن کرائیں جس سے ٹوکن کی مد میں صوبے کو کثیر زر مبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔
سفیان نے بتایا کہ عام تاثر بھی یہی ہے اور ہم نے اپنا ایک سروے بھی کیا ہے کہ پاکستان میں اسلام آباد اور لاہور نمبر کی گاڑیاں مارکیٹ میں قیمت کے لحاظ سے باقی گاڑیوں کے مقابلے میں 40 سے 50 ہزار روپے مہنگی ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے رجسٹریشن کے اس عام تاثر کو ختم کرنے کے لیے فیس کو ایک روپیہ کیا ہے تاکہ لوگ آ کر پشاور میں اپنی گاڑیاں رجسٹریشن کرائیں۔
سفیان نے بتایا کہ ’ایک جانب اس سے ہمیں رجسٹریشن کی مد میں ہونے والی آمدن کم ہو گی تاہم اگر گاڑیاں یہاں رجسٹرڈ ہونا شروع ہوئیں تو ٹوکن کی مد میں ہمیں بہت آمدن مل سکتی ہے۔ رواں مالی سال میں محکمہ ایکسائز کو 75 کروڑ روپے ٹوکن ٹیکس کی مد میں اور تقریباً 35 کروڑ رجسٹریشن کی مد میں ملے ہیں۔'
سفیان کے مطابق ’ہم نے ایک اور فیصلہ بھی کیا ہے کہ اگر کسی کے پاس کسی دوسرے شہر کی رجسٹرڈ گاڑی ہے تو وہ پشاور آ کر اپنی گاڑی کو بغیر کسی فیس کے پشاور رجسٹریشن میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہم ان کو رجسٹریشن نمبر جاری کریں گے۔‘
سفیان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس مد میں کسی قسم کے این او سی کا مطالبہ بھی نہیں کریں گے۔ کسی دوسرے شہر کی رجسٹریشن کی تبدیلی کے لیے گاڑٰی رجسٹریشن بک اور فائل سمیت محکمہ ایکسائز تشریف لانے پر ہم ان کو رجسٹریشن نمبر جاری کر دیں گے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے بتایا کہ ’یہ رجسٹریشن اصل میں ہم نے مفت کردی ہے۔ لیکن کچھ قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے فیس ایک روپیہ مقرر کیا گئی ہے۔ جبکہ 2500 سے زائد گاڑیوں کے لیے گاڑی کی قیمت کا ایک فیصد رجسٹریشن فیس مقرر کیا گیا ہے۔'
رحم گیر خان گزشتہ تین دہائیوں سے گاڑی اپنے پاس رکھتے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اسلام آباد یا لاہور نمبر کی گاڑی خریدیں ۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کا فیصلہ نہایت خوش آئند ہے کہ شہروں کے مابین یہ تفریق ختم ہوجائے۔ کیونکہ میں بھی پشاور نمبر کی گاڑی لینے سے اس لیے کتراتا ہوں کہ اس کی مارکیٹ ویلیو اسلام آباد اور لاہور نمبر کی گاڑیوں سے کم ہوتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’حکومت کے اس اقدام سے شاید اب یہاں گاڑیاں رجسٹرڈ ہونا شروع ہو جائیں گی اور گاڑیوں کے مابین یہ تفریق ختم ہوجائے گی ۔'
رحم گیر نے بتایا کہ ’محکمہ ایکسائز خیبر پختونخوا کی جانب سے دیگر سہولیات جیسا کہ موبائل ایپ کے ذریعے ٹوکن ٹیکس جمع کرنے کی سہولت دینے پر بھی کام کیا جانا چاہیے۔‘