پاکستانی فوج کے اس سال مارچ میں برخاست کیے گئے ایک سابق میجر جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں برطرفی کے خلاف دائر کی گئی درخواست کے ناقابل سماعت قرار دیئے جانے کے بعد یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق میجر جنرل منظور احمد کو رواں برس نو مارچ کو ملازمت سے برخاست کیا گیا تھا، جس پر انہوں نے جمعے کو اپنی برطرفی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ابتدائی سماعت کے بعد علاقائی دائرہ اختیار نہ ہونے پر درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ سے متعلق ہے کیونکہ درخواست گزار جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے اس حکم کے خلاف انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے، جو راولپنڈی میں واقع ہے اور علاقائی حدود کے لحاظ سے لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔‘
جس پر درخواست گزار سابق میجر جنرل منظور احمد کے وکیل عابد ساقی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کے مطابق وہ آئندہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کریں گے۔
عابد ساقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وہ پہلے غیر قانونی طور پر برطرفی کے احکامات سے متعلق کیس لڑیں گے اور اس کا فیصلہ آنے پر اگلا لائحہ عمل بنایا جائے گا۔ اس فیصلے کی روشنی میں مزید کارروائی کے لیے عدالت سے رجوع کرنے یا نہ کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔‘
اپنی درخواست میں سابق میجر جنرل منظور نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں ابتدائی طور پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی پیش کش کی گئی تھی، تاہم ان کے انکار پر جبری ریٹائر کیا گیا اور جب انہوں نے جبری ریٹائرمنٹ کے خلاف وفاقی حکومت اور محکمے کے سامنے اپیل دائر کی تو انہیں برطرف کردیا گیا جو کہ غیر آئینی اقدام ہے۔
مصبرین کے مطابق اس سطح پر کسی فوجی افسر کے عدالت سے رجوع کرنے کا یہ غیرمعمولی واقعہ ہے۔
درخواست گزار کے مطابق: ’انہوں نے پروموشن سے متعلق آرمی چیف کو بھی آگاہ کیا تھا کہ میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدوں پر ترقی کے لیے کیا طریقے اپنائے جاتے ہیں اور اس کے ادارے پر اثرات کی بھی نشاندہی کی تھی۔‘
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ’درخواست گزار کی تجاویز پر مناسب غور کرنے کی بجائے اور انہیں بطور تھری سٹار جنرل چھ ماہ اس عہدے کا تجربہ ہونے کے باوجود لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی بجائے ملازمت سے ہی غیر قانونی طور پر برخاست کردیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق میجر جنرل منظور کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کے مطابق وہ 1985 میں پاکستانی فوج میں بھرتی ہوئے اور سروس کے دوران میجر جنرل (بی ایس 21) کے عہدے پر پہنچے۔ اس پوری سروس میں ان کے خلاف کسی سطح پر بھی منفی ریکارڈ یا بدعنوانی سامنے نہیں آئی جبکہ انہوں نے مسلح فوج میں قائمقام انسپکٹر جنرل اسلحہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں جو لیفٹیننٹ جنرل کی پوسٹ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ملٹری سکریٹری نے گذشتہ سال جولائی میں انہیں آگاہ کیا تھا کہ وہ وقت سے پہلے ہی 15 جولائی 2020 کو ریٹائر کر دیے جائیں گے، لہذا اس فیصلے کے خلاف انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سامنے اپیل بھی دائر کی اور درخواست کے مطابق آرمی چیف نے درخواست گزار کے ساتھ اتفاق کیا لیکن قبل از وقت ریٹائرمنٹ آرڈر واپس لینے میں کوتاہی کا اظہار کیا۔‘
’مزید یہ کہ درخواست گزار کو بتایا گیا تھا کہ فوج میں ایک افسر کو ادارے کی ضروریات کے مطابق ریٹائر کیا جاسکتا ہے اور متعدد مغربی ممالک میں یہ ایک عام رواج ہے۔‘
درخواست کے مطابق: ’سابق میجر جنرل منظور نے 29 جون 2020 کو ملٹری سکریٹری کی طرف سے ریٹائرمنٹ آرڈر وصول کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ان کی ریٹائرمنٹ کی منظوری دے دی ہے۔ ریٹائرمنٹ آرڈر کی وصولی کے بعد انہوں نے 13 جولائی 2020 کو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے سامنے اپیل دائر کی، تاہم ملٹری سکریٹری کے دفتر نے اسے ایڈجسٹنٹ جنرل کے پاس بھیج دیا۔‘
مزید کہا گیا: ’اے جی سیکریٹریٹ نے جنرل منظور کو طلب کیا اور کہا کہ وہ یہ اپیل واپس لیں یا کورٹ مارشل کی کارروائی کا سامنا کریں اور ملازمت سے ریٹائرمنٹ کی بجائے انہیں برخاست کردیا جائے گا۔‘
درخواست کے مطابق: ’اس کے بعد ڈپٹی ملٹری سکریٹری کی جانب سے ریٹائرمنٹ کا حکم برقرار رکھتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر محمود، منگلا کور کی سربراہی میں انکوائری عدالت تشکیل دی گئی اور جنرل منظور کو اس کارروائی کا حصہ بننے کی ہدایت دی گئی۔‘
اپنی درخواست میں سابق میجر جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ’یہ صرف ایک سینیئر آرمی آفیسر کی تضحیک کرنے کے لیے کیا گیا تھا کیونکہ سروس رولز کے مطابق زیر تفتیش افسر کو صرف جب ضروری ہو، تب ہی کارروائی میں حاضر ہونا ضروری ہے۔‘
سابق میجر جنرل منظور کے مطابق: ’جب انہوں نے حکام سے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات فراہم کرنے کو کہا تو انہیں بتایا گیا کہ انکوائری ان کی اپنی شکایات کے ازالے کے لیے کی جارہی ہے۔‘
درخواست میں کہا گیا کہ ’کارروائی کے دوران نہ تو کسی گواہ سے جانچ کی گئی نہ ہی ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور نہ ہی درخواست گزار کو گواہوں کی جانچ پڑتال کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔‘
انہوں نے موقف اپنایا کہ ’نو مارچ کو ان کی برطرفی کا حکم غیر معقول ہے کیونکہ حکام کو سنگین نوعیت کے کسی جرم، نظم و ضبط کی خلاف ورزی یا سرکاری رازوں کے انکشاف کا کمیشن قائم کرنا پڑتا ہے جو انکوائری کرتا ہے لیکن درخواست گزار سے متعلق انکوائری یا کارروائی کبھی نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا سرکاری حکم پاس کیا گیا۔‘
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ان کی برطرفی کا حکم نامہ منسوخ کیا جائے جبکہ انہوں نے سروس بحالی یا ریٹائرمنٹ دینے کی درخواست نہیں کی۔
درخواست میں سیکریٹری دفاع، ایڈجسٹنٹ جنرل، ملٹری سکریٹری اور انسپکٹر جنرل آف اسلحہ کو فریق بنایا گیا ہے۔