پیر (21 جون) کی صبح ٹوئٹر پر ’افغان ڈیورنڈ لائن تسلیم نہیں کریں گے‘ کے ہیش ٹیگ سے ایک ٹرینڈ وائرل ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کی اصل حقیقت اور موجودہ وقت میں اس کی قانونی حیثیت کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے سوشل میڈیا ایڈیٹر ثاقب تنویر کے مطابق ٹوئٹر پر اس ٹرینڈ کا آغاز گذشتہ روز شام 4 بجے افغانستان سے ہوا اور اب تک اس ہیش ٹیگ کے ساتھ 17 ہزار ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔ اس ٹرینڈ کے لیے بیشتر ٹویٹس افغانستان اور پاکستان میں موجود اکاؤنٹس سے کی گئی ہیں، تاہم 10 فیصد ٹویٹس پاکستان اور افغانستان کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی کی گئی ہیں۔ ان ممالک میں برطانیہ، امریکہ، سپین اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
اس ٹرینڈ کے آغاز کے بعد متعدد پاکستانی اکاؤنٹس نے بھی اس ٹرینڈ کے خلاف اس میں حصہ لیا، جن میں سب سے زیادہ ری ٹویٹ کی جانی والی ٹویٹ پاکستانی صارف شاہد رضا کی تھی، جن کے مطابق: ’اس ٹرینڈ کا مطلب ہے کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بنے گا۔‘
پیر کی صبح پاک افغان خطے میں پہلے نمبر پر ابھرنے والے اس ٹرینڈ کے حوالے سے ٹویٹس کرنے والے بیشتر اکاؤنٹس کی حقیقت اگرچہ واضح نہیں ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اس میں کن ممالک کے لوگ کس مقصد کی خاطر اس موضوع پر لکھ رہے ہیں یا اس کو ہوا دے رہے ہیں، تاہم بظاہر ان مباحثوں میں افغانستان اور پاکستان کے صارفین ایک دوسرے کے سامنے دلائل دینے میں مصروف رہے۔
اس ٹرینڈ کے وجود میں آنے کے پیچھے بظاہر افغانستان کے ’طلوع‘ ٹی وی چینل کو دیا گیا پاکستانی وزیر خارجہ محمود قریشی کا انٹرویو اور گذشتہ ہفتے 19 جون کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا وہ بیان ہے، جس میں انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ’پاک افغان سرحد پر باڑ کا کام 80 فیصد مکمل ہوچکا ہے جب کہ باقی کا کام اگلے دس دن میں تکیمل کو پہنچ جائے گا۔‘
افغانستان کے شعبہ اطلاعات کے ڈائریکٹر دواخان مینہ پال نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو مخاطب کرکے لکھا: ’ہم افغانستان اور پاکستان میں رہنے والے افغان ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔‘
Mr #SMQureshiPTI We larAwBar #Afghans never accept #DuarandLine #AfghansNeverAcceptDurandLine#PakiProxyWar
— Dawa khan Menapal (@menapal1) June 20, 2021
افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک افغان صحافی حبیب خان نے لکھا: ’پاکستانی جانتے ہیں کہ چاہے ہزاروں حکومتیں آئیں اور ڈیورنڈ معاہدے پر دستخط کرلیں، ایک عام افغان شہری ڈیورنڈ لائن کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔‘
Pakistanis know that ordinary Afghans will never accept the Durand line, even if a million governments accept and sign it. #AfghansNeverAcceptDurandLine
— Habib Khan (@HabibKhanT) June 20, 2021
اسی طرح ایک صارف عبداللہ زاہد نے ٹویٹ کی: ’میں پشتون ہوں، میں افغان ہوں اور میں پاکستان میں رہتا ہوں۔ جو بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا، پاکستان چھوڑ دے۔‘
Some people be like:
— عبداللہ زاہد (@amsaaz) June 21, 2021
"I am Pashtun, I am afghan and I am living in Pakistan" but #AfghansNeverAcceptDurandLine, So leave Pakistan, as simple as that.
half of your nation wanna move to Pakistan for better living standards.
وائس آف پشتون کے نام سے ایک ٹویٹر اکاؤنٹ نے لکھا: ’ڈیورنڈ لائن اپنا سو سال کا معاہدہ مکمل کر چکا ہے۔ برطانوی قوتیں جس نے افغان قوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا، اس معاہدے کے پورا ہونے کے بعد اس خطے کو واپس اپنی اصل حالت میں لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘
The Durand Line Agreement was for a hundred years and it has now completed. The British forces who divided the Afghan nation into three parts must play their role in the completion of the agreement and erase the line drawn on the chest of this ½#AfghansNeverAcceptDurandLine pic.twitter.com/rQkynJQg7d
— The voice of the Pashtuns (@A_n_a_s___jan) June 20, 2021
کیا ڈیورنڈ لائن معاہدہ سو سال کے لیے تھا؟
اگرچہ ڈیورنڈلائن ہمیشہ سے موضوع بحث رہا ہے، تاہم پچھلی دو دہائیوں سے اس موضوع نے اس وقت زور پکڑا جب بھارت کے ایک پروفیسر واہے گرو پال سنگھ سدھو نے 1999 میں شائع کیے گئے ایک آرٹیکل ’ڈیورنڈ لائن کیوں اہم ہے‘ میں کہا کہ ’ڈیورنڈ لائن معاہدے کے سو سال پورے ہوچکے ہیں،‘ جس کے بعد اس خطے کے مصنفین، سکالرز، اساتذہ، طلبہ اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس بات کی مختلف فورمز پر پیروی کی۔
بھارت کے دیگر مصنفین کا بھی یہ کہنا ہے کہ ہانگ کانگ کی طرح خیبرپختونخوا کو بھی 99 سالہ لیز پر یعنی ادھار پر دیا گیا تھا۔
بھارت سے ڈیورنڈ لائن کے موضوع پر جنم لینے والے یہ دعوے زبان زد عام ہوچکے ہیں، جسے پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے ڈیورنڈلائن کے مخالفین دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو نے جب ڈاکٹر لطف الرحمٰن سے رابطہ کیا، جنہوں نے ڈیورنڈ لائن کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کے تھیسس لکھے ہیں اور اس میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے، تو انہوں نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کے حوالے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جارہی ہے کہ اس معاہدے پر امیر عبدالرحمن اور تاج برطانیہ کے درمیان سو سال کے لیے دستخط کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا: ’1894 کی انگریز حکومت کی ایک فائل جس میں ڈیورنڈ لائن معاہدہ تحریری شکل میں موجود ہے اور جس کے دستاویزی ثبوت میرے پاس ہیں، کی شق نمبر 2 اور 3 میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ افغانستان کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کے اس پار کسی قسم کی مداخلت نہیں کرے گا۔ ڈیڑھ صفحے پر مشتمل اس دستاویز میں کہیں بھی 100 سال کا ذکر موجود نہیں، لہذا یہ ایک من گھڑت بات ہے۔‘
کیا ڈیورنڈ لائن معاہدہ مسلط کیا گیا تھا؟
ڈیورنڈ لائن کے مخالفین اور خود افغانستان کی حکومت اکثر یہ بیان بھی دلیل کے طور پر پیش کرتی ہے کہ یہ معاہدہ امیر عبدالرحمٰن پر مسلط کیا گیا تھا، جس پر انہوں نے مجبوری کے تحت دستخط کیا تھا۔ اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر لطف الرحمٰن کا کہنا ہے کہ امیر عبدالرحمٰن نے 1888میں خود برٹش انڈیا کو ایک خط میں درخواست کی تھی کہ افغانستان کے ساتھ برٹش انڈیا اپنی سرحد واضح کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’برٹش انڈیا کے نظرانداز کرنے کے بعد امیر عبدالرحمٰن نے مزید تین بار خطوط لکھے اور تینوں مرتبہ انہوں نے اس معاملے پر بطور خاص اس وقت ہندوستان کے لیے برطانوی حکومت کی جانب سے تعینات وزیرخارجہ مارٹمر ڈیورنڈ کے لیے درخواست کی لیکن برٹش انڈیا نے ان کی جگہ جنرل رابرٹ کو منتخب کیا تاہم دوسری اینگلو افغان جنگ میں جنرل رابرٹ کے کردار کی وجہ سے امیر عبدالرحمٰن ان کو ناپسند کرتے تھے۔‘
پروفیسر لطف الرحٰمن کہتے ہیں کہ ’تاریخی حوالوں سے یہ واضح ہے کہ جنرل رابرٹ کی ریٹائرمنٹ کے بعد امیر عبدالرحمٰن نے چوتھی مرتبہ پھر ایک خط لکھا جس کے بعد برٹش انڈیا نے دو اکتوبر 1893 کو سرمارٹمر ڈیورنڈ کی سربراہی میں ایک وفد کابل بھیجا، تاکہ افغانستان کی خواہشات کے مطابق برٹش انڈیا اور افغانستان کے درمیان سرحد کا تعین کیا جاسکے۔ یہ مذاکرات تقریباً 42 روز تک جاری رہے، جس کے بعد 12 نومبر 1893 کو برٹش انڈیا اور افغانستان کی سلطنت کے درمیان ڈیورنڈ معاہدہ طے پایا۔‘
ڈاکٹر لطف الرحٰمن کے مطابق: ’امیر عبدالرحمٰن نے معاہدے سے قبل اور معاہدہ طے پانے کے بعد دو بار اپنی قوم سے خطاب کیا، جس کا تاریخی ثبوت میرے پاس موجود ہے۔ دونوں بار اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ اس معاہدے سے کس قدر خوش ہیں۔ معاہدے کے بعد پشاور سے جانے والے برطانوی وفد کو 35 ہزار نقد انعام دیا گیا اور انہیں مختلف ایوارڈز بھی دیے گئے، لہذا یہ کہنا کہ یہ ایک مسلط کیا گیا معاہدہ ہے، غلط ہے۔ دعویٰ کرنے والے ثبوت دکھائیں۔‘
افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2590 کلومیٹر طویل سرحد ڈیورنڈ لائن کہلاتی ہے اور ڈیورنڈ معاہدے میں اس کی واضح نشاندہی کی گئی ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور چترال تک پھیلی اس سرحد کے معاہدے میں واضح نشاندہی کی گئی ہے۔
’امیر عبدالرحمن معاہدے کی انگریزی زبان سمجھ نہیں پائے تھے‘
ڈیورنڈ لائن کے مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ انگریزی میں تھا، اس لیے امیر عبدالرحمٰن اس کے متن کو سمجھے ہی نہیں تھے، تاہم پروفیسر ڈاکٹر لطف الرحمٰن کے مطابق یہ دعویٰ غلط بیانی پر مبنی ہے اور اس کی واضح مثال یہ ہے کہ سر مارٹمر ڈیورنڈ اور امیر عبدالرحمٰن کے درمیان تمام بحث مباحثے فارسی میں طے پائے تھے، کیونکہ سرڈیورنڈ فارسی زبان پر عبور رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنی تقریر بھی فارسی زبان میں کی تھی۔
’مارٹمر ڈیورنڈ فارسی کے سکالر تھے۔ انگریز دور حکومت میں ان افسران کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، جنہیں علاقائی زبانوں پر عبور حاصل ہوتا تھا۔ اس بنیاد پر ان کی تقرریاں ہوتی تھیں اور ایسے افسروں کی تنخواہیں بھی زیادہ ہوتی تھیں۔‘
بشمول امریکہ دنیا کی تقریباً سب بڑی طاقتیں ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتی آرہی ہیں، تاہم برطانوی حکومت کے برصغیر چھوڑنے کے فیصلے کے بعد افغانستان نے یہ موقف اختیار کیا کہ برصغیر پاک وہند سے برطانیہ کے چلے جانے کے بعد اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔
اسی تناظر میں 1947 میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں رکنیت کے لیے درخواست دی تو افغانستان وہ واحد ملک تھا، جس نے پاکستان کی مخالفت کی۔