ہم چھوٹے سے تھے کہ ایک دن ہمیں سائیکل چلانے کا شوق پیدا ہو گیا۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں آنے والی ایک ڈبل روٹی ’ونڈر بریڈ‘ میں سے ایک کوپن نکلتا تھا جسے پر کر کے قرعہ اندازی کے ذریعے ایک عدد سائیکل حاصل کرنے کے حوالے تحریر درج ہوا کرتی تھی۔ اب سائیکل کی خواہش ایسی تھی کہ خاص طور پر ڈبل روٹی منگوائی جاتی تھی۔
چونکہ ہم وسطی پنجاب کے ضلع خوشاب کے رہائشی تھے تو ہمارے شہر میں ناشتے کا مطلب پراٹھے اور چائے ہوتا تھا اور آج بھی ہے۔ اس نئی صدی میں بھی ڈبل روٹی کھانے والے بچوں کی تعداد 30 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، تب تو پراٹھے کے بغیر ناشتے کا تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ خیر اس سائیکل کے چکر میں کئی بار پراٹھے پر ڈبل روٹی پر فوقیت دی لیکن شومیِ قسمت کہ سائیکل کی خوشی آج تک نصیب نہیں ہوئی۔
تب تقریباً ہر گھر میں ایک سائیکل موجود ہوتی تھی۔ سہراب اور چائنا دو قسم کی سائیکلوں نے مارکیٹ پر قبضہ جما رکھا تھا۔ چائنا والی سائیکل سہراب کی نسبت ذرا نفیس ہوا کرتی تھی اس لیے چٹ کپڑیے یعنی سفید کاٹن یا لٹھے کا سوٹ پہننے والے افراد اس کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب سائیکل کو بڑے پیمانے پر بطور سواری استعمال کیا جاتا تھا۔ بڑے سرکاری افسر اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر تک سائیکل چلایا کرتے تھے۔ اخباروں اور رسالوں میں سائیکلوں کے اشتہار بڑے اہتمام سے چھپا کرتے تھے۔
اس دور میں سائیکل کی کیا قدر و منزلت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 60 اور 70 کی دہائی تک کو بینک والے سائیکل خریدنے کے لیے قرض دیا کرتے تھے۔
اگر آپ اس زمانے کا ادب پڑھیں تو سائیکل کا ذکر جگہ جگہ ملے گا۔ کئی بڑے ادیب سائیکل پر سوار ہو کر لاہور کے پاک ٹی ہاؤس جایا کرتے تھے۔
پاکستان میں سائیکل نے سیاسی میدان میں بھی قدم جمائے رکھے۔ یہ سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا دور تھا۔ ایک انہیں جرنیلی وردی پہن کر سائیکل پر سوار ہو کر شہر بھر کا چکر لگانے کی ٹھانی۔ توانائی کی بچت کے لیے جنرل ضیا نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ آرمی ہاؤس سے صدر آفس تک سائیکل پر سوار ہو کر جایا کریں گے۔ وہ سائیکل پر سوار ہو کر راجہ بازار سے گزرے راستے میں سانس لینے رکے تو عوام میں آٹے کے تھیلے بھی تقسیم کیے۔ اس سفر میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر اور جنرل کے اے ڈی سی بھی ہمراہ تھے۔ راولپنڈی صدر پر میڈیا انتظار میں تھا کہ جنرل صاحب کے اس سیاسی معرکے کو کیمرے کی آنکھ اور قلم کی سیاہی میں محفوظ کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال 1990 کے انتخابات میں میاں نواز شریف سائیکل کا ہم رکاب بنایا لیکن جب 1993 میں پاکستان مسلم لیگ جونیجو گروپ نے سائیکل کے انتخابی نشان کو اپنا حقیقی انتخابی نشان قرار دیا تو میاں نواز شریف نے سائیکل سے منہ موڑ کر شیر کی سواری شروع کر دی۔ البتہ سائیکل کا سفر اپنی چال چلتا رہا اور آخر 2002 اور 2008 میں پاکستان مسلم ق نے عام انتخابات میں سائیکل کے انتخابی نشان پر انتخابی عمل میں حصہ لیا۔
پاکستان میں تبدیلی کے مختلف نعرے گونجتے رہے ان میں ایک نعرہ وزیراعظم کے سائیکل پر سوار ہو کر دفتر آنا بھی تھا بدقسمتی سے یہ نعرے شرمندۂ تعبیر رہ گئے اور ان دو چرخوں کی جگہ چار پہیوں والی گاڑیوں نے لے لی جن کے شیشے کالے اور اندر بیٹھے انسان قسمت والے ہوتے ہیں۔
ایک دور تھا کہ ہر گھر میں ایک عدد سائیکل موجود ہوتی تھی، ہر گلے محلے اور شہر کی سڑکوں پر آدمی سائیکل پر سوار اپنے روزمرہ زندگی کے کام سرانجام دے رہے ہوتے تھے۔ لیکن اب تو سائیکل بھی خال خال نظر آتی ہے بڑے شہروں میں تو نئے ڈیزائن کے سائیکل بچے اور لڑکے لڑکیاں سائیکلنگ کی غرض سے چلا رہے ہوتے ہیں۔ سائیکل چلانے کی اصل وجہ ان کی جسمانی صحت اور فٹنس ہوتی ہے۔
ہمارے دفتر کی صفائی کرنے والا محمود بھی سائیکل پر آفس آتا ہے، اور وہ بھی روزانہ تقریباً 16 کلومیٹر سفر طے کر کے۔ کل میں نے پوچھا، ’محمود کب سے سائیکل پر آ رہے ہو؟‘
کہنے لگا، ’سر، جب سے کرونا شروع ہوا۔‘
میں نے کہا، ’وہ کیوں؟‘
کہنے لگا، ’پبلک ٹرانسپورٹ میں کرونا کا ڈر تھا اس لیے سائیکل پر آفس آنا شروع ہو گیا۔‘
پاکستان میں سائیکلنگ کے فروغ کے لیے ثمر خان کا نام جانا پہچانا ہے۔ ان سے گذشتہ رات ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے میں نے پوچھا، ’کیا آپ نے کبھی سائیکل کو بطور سواری استعمال کیا؟‘
ان کا جواب تھا، ’میں پروفیشنل سائیکلسٹ ہوں اور سائیکلنگ کا ہر ایونٹ سپانسرڈ ہوتا ہے!‘
لیکن انہوں نے بھی کبھی سائیکل کو بطور سواری استعمال نہیں کیا۔
اس سے باکسر محمد علی کلے سے منسوب ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک بار دو غنڈوں نے انہیں تاریک گلی میں پکڑ کر ان کی جیب سے 20 ڈالر نکال لیے۔ اگلے دن لوگوں نے پوچھا، ’آپ باکسنگ کے عالمی چیمپیئن ہیں، آپ ان سے لڑے کیوں نہیں؟‘
محمد علی نے کہا، ’میں ایک لاکھ ڈالر سے کم کوئی لڑائی نہیں لڑتا۔‘
اب حال یہ ہے کہ سائیکل بطور سواری انتہائی نچلا طبقہ بھی کبھی کبھار استعمال کرتا ہے جبکہ متوسط طبقے تک میں سائیکل کی سواری کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ رہی بات سیاست کی تو سائیکل بس ایک علامت ہی رہ گئی ہے جس کو سواری کے بجائے چوکوں، چوراہوں پر لٹکا دیا جاتا ہے، یا پھر کسی دیوار پر بطور انتخابی نشان نظر آئے گا۔ اس کے علاوہ سائیکل کی سواری کو توہین سمجھتا جاتا ہے۔
ہاں فٹنس کی بات دوسری ہے۔ اپر کلاس کے بچے بڑے کبھی کبھی خود کو فٹ رکھنے کے لیے سائیکل چلا لیتے ہیں۔