بحریہ ٹاؤن کراچی کے مرکزی دروازے پر چھ جون کو ہونے والے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کے واقعے کے بعد گرفتار ہونے والوں کا معاملہ تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے، مگر جمعے (25 جون) کی شام کو اس معاملے میں اس وقت نیا موڑ آیا جب ایک سندھی زبان کے ٹی وی چینل نے بحریہ ٹاؤن کا ایک اشتہار نشر کیا، جس کے بعد دو صحافیوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔
سندھی زبان کے ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے گروپ سمجھے جانے والے ’کاوش‘ گروپ کے چینل کے ٹی این نیوز پر دکھائے گئے مذکورہ اشتہار میں بحریہ ٹاؤن کراچی سے متصل گاؤں کے رہائشی مرد و خواتین کو سندھی زبان میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ’بحریہ ٹاؤن سے مقامی لوگوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے کسی مقامی فرد کی زمین پر کوئی قبضہ کیا ہے، بلکہ بحریہ ٹاؤن کی وجہ سے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقعے ملے ہیں۔‘
جسٹس فار بحریہ ٹاؤن کے ہیش ٹیگ کے ساتھ چلنے والے اس اشتہار میں ایک خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن سے اتنے پیسے کمائے کہ اپنا نیا گھر بنالیا ہے۔
اشتہار کے نشر ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی کے ٹی این نیوز کراچی کے بیورو چیف اور کے ٹی این پر کرنٹ افیئر کے پروگرام ’آن دی ریکارڈ‘ کے میزبان شکیل سومرو نے فیس بک پر عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا: انہوں نے لکھا: ’کے ٹی این نیوز کی جانب سے سندھ دشمن بحریہ ٹاؤن کے حق میں اشتہاری مہم چلانے پر میں کے ٹی این نیوز کراچی کے بیوروچیف کے عہدے اور اپنی ملازمت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔‘
ان کی اس پوسٹ پر 700 سے زائد لوگوں نے انہیں مبارک باد دینے کے ساتھ ان کے اس عمل کو سراہا۔
شکیل سومرو کی پوسٹ کے تھوڑی دیر بعد اسی گروپ کے حیدرآباد سے جاری ہونے والے اخبار ’کاوش‘ کے ادارتی صفحے کے انچارج منظور میرانی نے بھی فیس بک پوسٹ میں استعفے کا اعلان کردیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شکیل سومرو نے بتایا: ’جس وقت یہ متنازع اشتہار کے ٹی این پر نشر ہوا اس وقت میں آفس میں ہی تھا، میں نے انتظامیہ سے کہا کہ ایسا اشتہار چلانا غلط ہے، جس پر مجھے جواب ملا کہ یہ بزنس ہے، تو میں نے کہا آپ بزنس کریں میں چلتا ہوں، یہ کہہ کر میں آفس سے نکل آیا۔‘
شکیل سومرو کاوش گروپ سے 24 سال تک منسلک رہے۔ ان کے مطابق انہوں نے 1997 میں کاوش اخبار بطور رپورٹر جوائن کیا۔ اس وقت وہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی میں رپورٹر رہے۔ 2002 میں انہوں نے کے ٹی این چینل جوائن کیا اور کرنٹ افیئرز کے پروگرام ’آن دی رکارڈ‘ کی میزبانی سے پہلے وہ ’دی فوکس‘ نامی پروگرام کے میزبان بھی رہ چکے ہیں۔
استعفے سے متعلق شکیل سومرو نے بتایا: ’یہ میرے ضمیر کا فیصلہ تھا اور میں نے کسی سے مشورہ کرنے کے بجائے خود یہ فیصلہ کیا۔ ایسے اشتہار سے سندھ کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’کاوش گروپ کو ماضی میں بھی متنازع کالاباغ ڈیم کی حمایت میں اشتہارات ملے مگر وہ نہیں چلائے گئے۔ آج جب پورا سندھ بحریہ ٹاؤن کے مظالم کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو ایسے میں یہ اشتہار چلانا مناسب نہیں۔ میں نے استعفیٰ دے کر کسی پر احسان نہیں کیا اور میں اب خوش ہوں۔‘
دوسری جانب ’کاوش‘ اخبار سے مستعفی ہونے والے منظور میرانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جس طرح زمین لی گئی، اس پر سندھ بھر میں احتجاج جاری ہے۔ ایسے میں ایک اشتہار چلاکر غلط رنگ دیا جارہا ہے۔‘
بقول منظور میرانی: ’میڈیا ایک کمرشل ادارہ ہے اور وہ اشتہار پر ہی چلتا ہے، مگر کچھ معاملات میں اشتہار نہیں چل سکتے۔ جیسے کسی پاکستانی اخبار میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق اشتہار نہیں چل سکتا، کیوں کہ وہ قومی مفادات کے خلاف ہے۔ اسی طرح سندھ کے بھی کچھ قومی مفادات ہیں، جن پر اشتہار نہیں چلایا جاسکتا۔‘
اخبارات نذر آتش
کاوش گروپ کے تحت سندھی زبان کے تین ٹی وی چینل ’کے ٹی این نیوز‘، ’کے ٹی این انٹرٹینمنٹ‘ اور ’کشش ٹی وی‘ اور تین اخبارات ’کاوش، کوشش اور شام‘ شائع ہوتے ہیں۔
کے ٹی این پر اشتہار نشر ہونے کے بعد ہفتے کی صبح سندھ میں چند مقامات پر لوگوں کو اخبار ’کاوش‘ اور ’کوشش‘ کو احتجاجاً جلاتے دیکھا گیا۔
کراچی پریس کلب کے سامنے کافی عرصے سے سندھ کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والی قوم پرست تنظیم سندھ سبھا کے رہنما انعام عباسی کو تنظیم کے فیس بک پر ایک لائیو ویڈیو میں مذکورہ اخبارات کو جلاتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس معاملے پر کے ٹی این نیوز کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ چینل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اطہر قاضی نے اشتہار کا نوٹس لیتے ہوئے ادارتی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا: ’ہمارے ادارے میں مارکیٹنگ کا ایک علیحدہ شعبہ ہے۔ اطہر قاضی نے اشتہار کو فوری طور روک دیا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ کے ٹی این نیوز سندھ کی آواز ہے۔ یہ میرا ذاتی ادارہ نہیں ہے، بلکہ سندھ کے عوام کا ہے۔‘
مزید کہا گیا: ’اگر کسی کو کے ٹی این نیوز کی سندھ سے محبت دیکھنی ہے تو حالیہ دنوں میں بحریہ ٹاؤن کے سامنے ہونے والے احتجاجی دھرنے کی ٹرانسمیشن اور اس کے بعد کے واقعات کی کوریج دیکھیں۔ کے ٹی این نیوز کی ادارتی پالیسی ہمیشہ آزاد اور خود مختار رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ادارتی پالیسی کو کبھی بھی اشتہارات کے باعث نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارہ ادارہ سندھ کے لوگوں کی ترجمانی میں ہمیشہ اگلی صف میں کھڑا ہوکر خدمات سانجام دیتا رہے گا۔‘
دوسری جانب مذکورہ اشتہار چلنے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے چینل انتظامیہ کو آڑے ہاتھ لیا اور سوال اٹھایا کہ اشتہار پر ’پیڈ کانٹینٹ‘ یا ’پیسوں سے چلنے والا اشتہار‘ کیوں نہیں لکھاگیا؟
صارفین نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اشتہار میں چلنے والی ویڈیو کے ٹی این نے خود شوٹ کی ہے۔ ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کے ٹی این کے ڈائریکٹر نیوز مصطفیٰ جروار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سب کو پتہ ہے کہ اشتہار دینے والے لوگ کسی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو اشتہار دیتے ہیں، بعد میں ایجنسی بجٹ اور دیگر چیزوں کو دیکھ کر خود ہی فیصلہ کرتی ہے کہ کس ٹی وی یا اخبار کو اشتہار دیا جائے، یہ اشتہار بھی ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے بنابنایا ملا تھا، جو ہم نے چلایا۔‘
اشتہار پر ’پیڈ کانٹینٹ‘ نہ لکھنے کے سوال پر مصطفیٰ جروار نے کہا: ’اشتہار میں واضح طور پر جسٹس فار بحریہ ٹاؤن کا ہیش ٹیگ اور بحریہ ٹاؤن کراچی کا لوگو لگا ہوا ہے۔ اب لوگوں کو یہ بھی سمجھانا ہوگا کہ اشتہار کون سا ہے اور خبر کون سی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اشتہار اور ادارتی پالیسی دو الگ چیزیں ہیں۔ ’ہم واحد میڈیا ہیں جس نے بحریہ ٹاؤن سے متعلق پہلی بار نیوز بریک کی کہ کیسے مقامی لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے۔ ہم نے ہمیشہ بحریہ ٹاؤن مخالف احتجاج کو مکمل کوریج دی۔ اس اشتہار سے ہماری ادارتی پالیسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر اشتہار سے ادارتی پالیسی پر اثر نہیں پڑا تو پھر اشتہار روک کیوں دیا گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’جب سارے سندھ نے اس اشتہار پر احتجاج کیا تو اسے روک دیا گیا۔‘
سندھ میں صحافیوں کے استعفے، پہلا واقعہ نہیں!
سندھ میں صحافیوں کا کسی معاملے پر اس طرح استعفیٰ دینے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں جب کالا باغ ڈیم کے متنازعہ منصوبے کی مہم چلائی اور اس دوران 2005 میں سندھی اخبارات کو ایک اشتہار دیا گیا مگر وہ اشتہار کسی اخبار نے نہیں شائع کیا، تاہم پنجاب سے تعلق رکھنے والے خبریں گروپ کے سندھی اخبار ’خبروں‘ نے جب وہ اشتہار چھاپا تو اخبار کے ایڈیٹر ظہیر میرانی، نیوز ایڈیٹر ذلف پیرزادہ اور سب ایڈیٹر سے لے کر تمام رپورٹروں اور کمپیوٹر سٹاف کے تمام عملے نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔
اس حوالے سے سینیئر صحافی سہیل سانگی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’صحافی بھی ایک انسان ہے اور جب کوئی تحریک چلتی ہے تو صحافی بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں، یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ جب بنگلہ دیش کی تحریک چلی تو وہاں کے صحافی بھی پارٹی بن گئے تھے۔‘
سہیل سانگی کے مطابق سابق فوجی آمر ضیاالحق نے جب پریس قوانین میں ترمیم کرکے ’مساوات، الفتاح اور معیار‘ سمیت کئی اخباروں کو بند کیا تو صحافیوں نے کراچی میں تاریخی بھوک ہڑتال کے ساتھ ایک بھرپور تحریک چلائی تھی۔ ’ویسے تو وہ صحافت کی تحریک تھی، مگر لاشعور میں وہ بھی ایک سیاسی تحریک تھی۔‘
پشتو، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، ہندکو اور شینا سمیت پاکستان میں بولی جانے دیگر زبانوں کے مقابلے میں سندھی زبان میں سب سے زیادہ اخبارات، ایف ایم ریڈیو اور ٹی وی چینلز ہیں۔ سندھ حکومت کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق کراچی، حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ اور دیگر اضلاع سے سندھی زبان میں 150 سے زائد اخبارات کے ڈیکلریشن جاری ہوچکے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے نکلنے والے اخبارات سندھی زبان کے اخبارات سمجھے جاتے ہیں۔ حاجی عبداللہ ہارون نے مارچ 1920 میں کراچی سے ایک سندھی روزنامہ ’الوحید‘ نکالا جو پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی سے نکلنے والا واحد سندھی اخبار تھا، مگر 1950 کے بعد حیدرآباد سے ’ہلالِ پاکستان اور کاروان‘، کراچی سے ’نوائے سندھ، نئیں سندھ اور مہران‘ شائع ہونا شروع ہوئے۔ ’عبرت اور خادمِ وطن‘ ہفتہ وار کی بجائے روزناموں میں تبدیل ہوگئے۔ ’نوائے انقلاب اور نجات‘ سکھر سے نکلتے تھے۔ ’سارنگ، نوائے سندھ اور اتحاد‘ جیکب آباد سے نکلا کرتے تھے، جبکہ ’ناظم‘ شکار پور سے شائع ہوتا تھا۔
صحافت اور دیگر موضوعات پر کئی کتابیں لکھنے والے اور انگریزی اخبار ڈان سے 19 سال سے منسلک رہنے والے صحافی مرحوم شیخ عزیز نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ مجموعی طور پر سندھی اخبارات و رسائل کا دائرہ پاکستان کی کسی بھی علاقائی زبان کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ مسلسل پھیل رہا ہے۔