افغانستان کے سب سے بڑے فوجی ہوائی اڈے بگراہم ایئربیس کی طرف جانے والی شاہراہ کے قریب زمین پر بیٹھے میر سلام کسی کام کی چیز کی تلاش میں ٹوٹے پھوٹے برقی آلات کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے ہیں۔
یہ سامان ملک سے واپس جانے والی امریکی فوج کی جانب سے باہر نکالا گیا ہے۔ ہر طرف مختلف آلات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، جن میں توڑی ہوئی فوجی گاڑیاں، ٹیلی فونز سے لے کر تھرمس فلاسک، کمپیوٹر کے کی بورڈ اور پرنٹر کے کارٹیجز شامل ہیں۔
کباڑ کا کام کرنے والے40 سالہ میر سلام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’امریکی ایسا ہی کام کرتے ہیں۔ وہ ہر چیز کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیتے ہیں۔‘
امریکہ پر 11 ستمبر کے حملوں کے 20 سال مکمل ہونے تک تمام امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے تحت بگرام ایئر بیس کو خالی کیا جارہا ہے۔
انخلا کا عمل مہینے کے آخر تک مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں فوجی سازوسامان امریکہ واپس لے جایا جا رہا ہے یا افغان سکیورٹی فورسز کو دیا جا رہا ہے لیکن کئی ٹن وزنی غیر فوجی سامان کو افغانستان میں ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔
اس عمل کے نتیجے میں کباڑ کا کاروبار خوب چمک رہا ہے اور کچھ لوگ اس سے پیسہ بنانے میں مصروف ہیں لیکن کچھ لوگوں کو افسوس ہے۔
میر سلام کا چھوڑے گئے سامان کے بارے میں کہنا تھا کہ امریکی اسے تباہ کر دیتے ہیں یا جلا دیتے ہیں۔ ’ان چیزوں کو تباہ کرنے سے بہتر تھا کہ یہ سالم حالت میں عوام یا حکومت کو دے دی جاتیں، یہ حکومت کے بہت کام آنی تھیں لیکن ہماری حکومت بھی بدعنوان ہے۔ اگر حکومت اس کا صحیح استعمال کرلیتی تو دس مرتبہ ہمارے ملک کی تعمیر نو ہوسکتی تھی۔‘
سلام نے مزید بتایا: ’میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بڑے فوجی ٹینکوں سے لے کر ایک قلم تک کو توڑ کر فوجی اڈے سے باہر نکالا گیا۔‘
کباڑ کے ڈھیر کو دیکھتے ہو ئے بگرام کے ایک رہائشی محمد امین کا کہنا تھا: ’امریکی ہمارے ملک کی تعمیر نو کے لیے آئے لیکن اب وہ اسے تباہ کر رہے ہیں۔وہ ہمیں یہ سب کچھ دے سکتے تھے۔‘
بگرام ایئربیس دو دہائیوں تک افغانستان میں امریکی کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ لاکھوں فوجی اور ٹھیکے دار اس پھیلتے ہوئے چھوٹے سے شہر کا حصہ بنے ہیں، جسے سوئمنگ پولز، سنیما گھروں، گرم پانی کے حماموں حتیٰ کہ لکڑی کے تختوں سے بنائے گئے راستوں سے مزین فاسٹ فوڈ ریستورانوں جیسے کہ برگرکنگ اور پیزا ہٹ پر فخر ہے۔ یہاں ایک جیل بھی ہے جہاں ہزاروں طالبان اور جہادی کئی سال تک قید رہے ہیں۔
1950 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران امریکہ نے اپنے اتحادی ملک افغانستان کے لیے بگرام ہوائی اڈے کو تعمیر کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد شمال میں سابق سوویت یونین کو روکنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے برعکس یہ 1979 میں افغانستان میں سوویت یونین کے پڑاؤ کا مقام بن گیا اور سرخ فوج نے افغانستان پر تقریباً 10 سال تک جاری رہنے والے قبضے کے دوران اس میں نمایاں توسیع کی۔
تاہم افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد بگرام شدید خانہ جنگی کا مرکز بن گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک موقعے پر بگرام اڈے کے تین کلومیٹر طویل رن وے کے ایک سرے پر طالبان اور دوسرے پر شمالی اتحاد کا قبضہ تھا۔
امریکی فوج کی واپسی کے بعد صرف سامان ہی نہیں جو پیچھے رہ جائے گا بلکہ بگرام نئی وجود میں آنے والے بستیوں میں بھی گھرا ہوا ہے جن کے مکینوں کے روزگار کا دارومدار اس اڈے پر ہے۔
ضلعی گورنر لالا شیرین رؤفی کے مطابق: ’امریکی فوج کی واپسی سے افغانستان اور بگرام کی معیشت بری طرح متاثر ہوگی لیکن میں مستقبل کے حوالے پر امید ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’امریکیوں کی موجودگی سے ہزاروں افغان شہریوں کو روزگار ملا جن میں مکینک اور بیکرز شامل ہیں۔ میں ایک کمپنی کے ملازمین سے ملا ہوں جو بنیادی خوراک فراہم کرتی ہے۔ اس کے ملازمین بے روزگار ہونے سے خوفزدہ ہیں۔‘
رؤفی کا کہنا تھا کہ امریکہ کے جانے کی صورت میں اڈے کا چارج اور سکیورٹی سنبھالنے کے تمام انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’ہم پولیس، فوج اور این ڈی ایس (افغان خفیہ ادارے)کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے فوجیوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے۔ جو ضروری شرائط پوری کرے گا، اسے بھرتی کیا جائے گا۔اس دوران امریکی انخلا جاری رہے گا۔‘