امریکی ناول نگار خاتون لزاٹیڈیو کے نئے ناول ’اینیمل‘ کے آغاز میں ایک شخص نیویارک کے ریستوران میں داخل ہوتا ہے اور خود کو گولی مار لیتا ہے۔
واقعات بیان کرنے والی جون نامی خاتون کا مشاہدہ تھا کہ ’وہ ایک پیٹو شخص تھا اور جب اس کا خون باہر نکلا تو ایسا لگا جیسے وہ کسی سؤر کا ہو۔‘
مرنے والے شخص ان خاتون کے شادی شدہ باس تھے جن کے ساتھ ان مسائل سے بھرپور معاشقہ چل رہا تھا۔ وہ ایک جنونی اور ملکیت جتانے والی شخصیت کے مالک تھے۔ جب دونوں اکٹھے نہیں ہوتے تھے تووہ خاتون کی جاسوسی کرتے۔ جون جب ان کے ساتھ ہوتیں تو اپنی ناپسندیدگی چھپانے کی کوشش کرتی رہتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’دن میں تین مرتبہ نہانا کافی نہیں تھا۔‘
’اینیمل‘ لزا کے 2019 میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے والے ناول ’تھری ویمن‘ کا تسلسل ہے جس میں انہوں نے خواتین کی حقیقی زندگی کی کہانیوں اور ان کے جنسی تعلقات کے بارے میں بتایا ہے۔ اینیمل ایک فرضی داستان ہے لیکن اس کا تعلق طاقت اور تشدد کے انہی موضوعات اور طریقوں کے ساتھ ہے جنہیں خواتین، مردوں کو خوش اور رام کرنے کے لیے سیکھتی ہیں۔ خواہ وہ ساتھ کام کرنے والے ہوں، والد ہوں،خاوند ہوں یا عاشق۔
جون نیویارک سے فرار ہو کر ایک نئی زندگی کے لیے ٹوپنگا کینیئن ،لاس اینجلس میں واقع ہپیوں کے ایک سابق ٹھکانے پر پہنچتی ہیں، اپنے آپ کو صرف مردوں کی نظروں سے دیکھتی ہیں اور اس وجہ سے وہ مردوں سے نفرت کرتی ہیں۔ زندگی بھر کی بدسلوکی اورصدمے نے انہیں ظالم بنا دیاہے اور ان کے غصے میں تباہ کن طاقت ہوتی ہے۔
آئرلینڈ کی لکھاری میگن نولن کے ناول ’ایکٹس آف ڈسپریشن‘ میں بھی وہی غصہ دکھائی دیتا ہے جس میں ایک خاتون اپنے متاثرہ فریق ہونے کو مسترد کر دیتی ہیں اور اس سے پہلے امریکی مصنفہ اوٹیساموشفک کے بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ ہونے والے ناول ’الین‘ جس میں ایسی خاتون کا ذکر ہے جو ہیروئن کی خوبیوں سے عاری ہیں اور اپنے والد کی غلام بن کر رہ رہی ہیں۔ وہ ہر انسان اور ہر چیزسے نفرت کرتی ہیں۔
ناولوں کے اس طرح کے نام باشعور اور پسندیدہ ناول نگار کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مرکزی کرداروں نے اب بھی بے ہودہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں یا قائم کر رکھے تھے اور مردوں کی اذیت پسندی کی وجہ سے کھائی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
ان کہانیوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہمارے پردوں پر بھی دکھائی دینے لگی ہیں۔ ایمرلڈفینل کی ’پرومسنگ ینگ وومن'‘ انتقام پر مبنی بھرپور مزاحیہ فلم ہے۔
کیری ملیگن کیسے ان مردوں کی تربیت کر کے دل کی بھڑاس نکالتی ہیں جوایسی خواتین کو شکار بناتے ہیں جنہوں نے شراب پی رکھی ہوتی ہے اور جنسی عمل پر رضامندی ظاہر کرنے کے قابل نہیں ہوتیں۔
ان کے اقدامات ایک میڈیکل سکول میں پیش آنے والے واقعے کے بعد غم وغصے کا براہ راست نتیجہ ہیں۔واقعے کی تفصیلات بتدریج سامنے آتی ہیں۔فلم میں خامیاں موجود ہیں لیکن کیسی کی مردکے حق اور اس کی حمائت کرنے والے اداروں کے لیے نفرت دیکھنے لائق ہے۔
مکیلا کول کی حیرت انگیر’آئی مے ڈسٹرائے یو‘ ایک مختلف قسم کاانتقامی خیال ہے جس میں ہماری ہیروئن اپنا ریپ کرنے والے شخص کا پیچھا کرتی ہیں۔
پھر ان کے دماغ میں نتائج کے مختلف خیالات آتے ہیں جن میں بعض دوسروں سے زیادہ پرتشدد ہیں۔ایک نسبتاً خاموش غصہ ’میئر آف ایسٹ ٹاؤن‘ میں نمایاں ہے۔ فلم میں اداکارہ کیٹ ونسلٹ جنہوں نے اس فلم میں سراغ رساں کا کردار ادا کیا ہے وہ اب تک دوسرے لوگوں اور ان کے گھٹیاپن کو سامنے لاتی رہی ہیں۔
ان کے کردار کی جھلک جرم وسزا پر مبنی فلم ’ہیپی ویلی‘ میں اداکارہ سارہ لنکاشائر میں ملتی ہے جنہوں نے فلم میں سرجنٹ کیتھرین کے وڈ کا کردار ادا کیا جو اسی طرح غصے کی حالت میں رہتی ہیں۔
بلاشبہ ان میں سے کوئی بھی غیرمعمولی نہیں ہونا چاہیے۔ غصیلے مرد صدیوں تک فن اور پرفارمنس کی دنیاؤں کے تعاقب میں رہے ہیں۔1950 کی دہائی میں ’ناراض نوجوانوں‘ کو عزت دی گئی ۔ ڈراما اور ناول نگاروں کے اس گروپ میں کنگزلی ایمس،جان اوسبرن، جان وین ، ایلن سلیٹواور وہ افراد شامل تھے جنہوں نے طبقاتی امتیاز، حاکمیت اور ایسی کسی بھی چیز کے خلاف آواز بلند کی جس کے بارے میں انہوں نے سمجھا کہ اس میں حقارت سے دیکھنے کاعمل پایا جاتا ہے۔
پھر مردانہ غصہ تحریکوں کو جنم دے سکتا ہے لیکن وہ خواتین جو اپنے غصے کے اظہار کی جرات کرتی ہیں انہیں سیدھے سادے انداز میں’سرپھری‘ یا ’جنونی‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیڈیو نے اس معاملے کو مختصر مگر جامع انداز میں اپنی تازہ تصنیف میں اٹھایا ہے جب انہوں نے سوال کیا ہے کہ'مرد غصے میں آکر قدم کیوں اٹھاتے ہیں۔ہم ایک جانب ہوجاتی ہیں۔ ہم شیروں کو ان کی جگہ لینے دیتی ہیں۔ہم سرکو ہلا کر بات سمجھ میں آنے کا اظہار کرتی ہیں۔لیکن خواتین ایسا کب کرتی ہیں۔ہم جنگلی، غیرمنطقی، محتاط اور بیمار ہیں۔'
پاگل خاتون کے استعارے کو برداشت کرنے کے عمل کو اب تک اس حقیقت سے تقویت نہیں ملی کہ ناراض خواتین کی کہانیاں زیادہ تر مردبیان کرتے رہے ہیں۔
یونان کے قدیم المیہ ڈراما نگار یوری پیڈیزکی المیہ دیومالائی داستان میں مڈیا نامی خاتون جنہوں نے خاوند کی جانب سے کسی دوسری شہزادی کے لیے انہیں چھوڑنے پر اپنے بچوں کو قتل کر دیا تھا، کی کردار نگاری سے لے کر سیدھا بے وفائی کے بارے میں ـ’فیٹل ایٹریکشن‘ نامی فلم تک جسے مرد حضرات نے لکھا اور ہدایت کاری کی، نے نفرت سے بھری خاتون کو بیان کرنے کے لیے’بنی بوائلر‘(ایسی خاتون جو عاشق کی بے وفائی کے بعد انتقامی ہو گئی ہو)کی اصطلاح کو فروغ دیا۔
کوئنٹن ٹارینٹینو کی فلم سیزیز ’کِل بِل‘ کو تشدد کے ذریعے خواتین کے طاقتور بننے کے عمل کے حتمی اظہار کے طور پر دیکھا گیا۔ اس عمل نے فلم کو خاص طورپر مایوس کن بنا دیا کیونکہ اس کی ہیروئن اوما تھرمن نے محسوس کیا کہ ہدایت کار ان پر دھونس جما رہے ہیں اور انہیں ایک غیرمحفوظ کار چلانے پر پر مجبور کیا گیا جو بعد میں حادثے کا شکار ہو گئی۔انہوں نے اس واقعے کو’انسانی صفات سے اتنا عاری ہونے کا عمل کہ چاہیے کسی کی موت ہو جائے‘ قرار دیا۔
ہراسانی کے خلاف مہم ’می ٹو‘ اور اس میں مرد حضرات کی بے رحمی اور جنسی عمل کے حق کے بارے میں حقیقی زندگی سے سامنے آنے والے شواہدغصے کے ہرانداز کو سامنے لے آئے ہیں۔ یہ کہ صدمات کی ان کہانیوں کا دنیا کی نظروں میں آنا اچھی بات ہے اگرچہ یہ امر افسوسناک ہے کہ ان سے ہالی ووڈ میں بڑے عہدے پر فائز ریپ کے مرتکب شخص کی غلط کاریوں کو بیان کرنے کا موقع پیدا ہوا۔
می ٹو تحریک نہ ہوتی تو اس بات کا امکان نہیں تھا کہ 17 صدی کی اطالوی مصورہ آرتیمیزیا جلنتی لیسکی کے فن پارے گذشتہ موسم خزاں میں نیشنل گیلری میں اپنی بڑی نمائش کی زینت بنتے۔
یہ برطانیہ میں ان کی تصاویر کی پہلی نمائش تھی۔جلنتی لیسکی کو ریپ کیا گیا تھا۔ عوامی سطح پر چلنے والے مقدمے میں انہیں شکنجے سے اذیت دی گئی اور ان کی شادی کروا دی گئی۔ان تمام باتوں کو شہرت ملی۔جب یہ سب کچھ ہوا ان کی عمر 20 سال سے کم تھی۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ان کی تصاویر میں مردوں کو اچھے انداز میں پیش نہیں کیا جاتا۔ ان کے سب سے زیادہ مشہور شہ پاروں میں سے ایک کا نام ’جوڈتھ کے ہاتھوں ہولوفرنیز‘ کا قتل ہے جس میں جوڈتھ اور ان کی خادمہ تلوار کے ساتھ ایک مرد کی گردن پر دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے آستینیں چڑھا رکھی ہیں۔زور لگانے کے نتیجے میں ان کے گال سرخ ہیں۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس بات کو چار سو سال ہو چکے لیکن اس کے باوجود خاتون فن کار،فلم ساز اور لکھاری اب بھی اپنے غصے کو اپنے کام میں ظاہر کرنے سے پہلے دو مرتبہ سوچتی ہیں کہ کہیں ان پر چولیں ڈھیلی ہونے کا ٹھپہ نہ لگا دیا جائے۔ لیکن آرٹ کے ذریعے اظہار کیا جائے تو غصہ بھڑاس نکالنے کا ذریعہ اور توانائی بخش ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ ہمیں اس دنیا کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں اور یہ کہ اپنے تجربات میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ہو سکتا ہے کہ غصہ مسائل حل نہ کرے لیکن یہ انتہائی یقینی ہے کہ اس کی بدولت ہم اپنے آپ کو بہتر محسوس کر سکتے ہیں۔
لیزا ٹیڈیو کے ناول’اینیمل‘ کو بلومزبری سرکس نے شائع کیا ہے۔
© The Independent