افغانستان میں امریکی افواج کے اعلیٰ فوجی کمانڈر نے طالبان کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی پر تشدد کارروائیاں اور علاقوں پر قبضے جاری رہے تو ان پر فضائی حملے کیے جا سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مئی کے آغاز سے دشوار گزار دیہی علاقے میں لڑائی میں اس وقت سے اضافہ ہو گیا ہے جب سے امریکی فوج نے افغانستان سے حتمی انخلا شروع کیا ہے۔
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں پورے ملک کے چار سو اضلاع میں سے 100 پر قبضہ کر لیا ہے۔
اے ایف پی نے امریکی فنڈ سے چلنے والے ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی سے ایک ویڈیو فوٹیج حاصل کی ہے جس میں امریکی جنرل سکاٹ ملر صحافیوں کو بتا رہے ہیں: ’میں کوئی فضائی حملہ نہیں دیکھنا چاہتا لیکن کوئی فضائی حملہ نہ ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ تمام تشدد بند کر دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے طالبان کو دراصل یہ بتا دیا ہے کہ انہیں (فضائی حملے) رکوانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ جارحانہ کارروائیاں اور فضائی حملے بند کردیں۔‘
جنرل آسٹن سکاٹ ملر نے واضح کیا ہے کہ انخلا جاری رکھنے کے باوجود امریکی فوج کے پاس عسکریت پسندوں پر فضائی حملے کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
توقع ہے کہ افغانستان میں موجود باقی امریکی فوجی 11 ستمبر تک واپس چلے جائیں گے۔ طویل ترین امریکی جنگ کے خاتمے کے بعد انخلا کی اس ڈیڈلائن کا اعلان صدر جو بائیڈن نے کیا تھا۔
افغان حکام اکثر طالبان کے مختلف اضلاع پر قبضوں کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتے اور ان دعوؤں کی آزادانہ تصدیق مشکل ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے طالبان کے حالیہ ہفتوں کے دوران متعدد اضلاع پر قبضے کے قابل ہونے کی ایک وجہ افغانستان کی زمینی فوجوں کو امریکہ کی جانب سے فضائی معاونت کی عدم فراہمی ہے۔ افغانستان کی زمینی افواج دیہی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔
جنرل ملر نے اعتراف کیا کہ کسی بھی علاقے کے ہاتھ سے جانے کے اثرات ملک کی سکیورٹی پر مرتب ہوں گے۔
ان کے مطابق: ’اضلاع نے ایسا ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے کہ ان کے اہم راستوں کا عوام کی سکیورٹی، صوبائی اور وفاقی دارالحکومت کی سکیورٹی کے ساتھ تعلق ہے۔‘
طالبان نے شہر قندوز کے اطراف شمال میں تاجکستان کے ساتھ ایک اہم سرحدی گزر گاہ سمیت دیگر اضلاع پر کامیاب محاصرے کے بعد حال ہی میں قبضہ کر لیا تھا۔
عسکریت پسندوں نے افغانستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کو گھیرے میں لے لیا ہے جس سے خوف پیدا ہو گیا ہے کہ وہ امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد کابل پر قبضے کے لیے فوجی انداز میں پیش قدمی کریں گے۔
جنرل ملر کا کہنا ہے کہ ’فوجی قبضہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ یقینی طور پر افغانستان کے عوام کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اس بات کو افغان سکیورٹی فورسز جانتی ہیں اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہیں وہ ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔‘
افغان وزارت داخلہ نے منگل کو کہا ہے کہ اس نے چار ہزار اہلکاروں پر مشتمل ’ریپڈ رسپانس فورس‘ تشکیل دی ہے جس کی قیادت فوج کے ایک سابق جرنیل کریں گے۔
یہ فورس سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر طالبان کے خلاف لڑائی کرے گی۔