حال ہی میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز سندھ میجر جنرل افتخار حسن چوہدری نے ایک تقریب سے خطاب میں بظاہر دعویٰ کیا کہ پاکستان میں تیزاب سے حملوں کے محض تین واقعات ہوئے، جنہیں نہ صرف میڈیا پر اچھالا گیا بلکہ ان پر دستاویزی فلم بھی بنالی گئی جبکہ برطانوی شہر لندن میں گذشتہ برس تیزاب سے حملوں کے 800 واقعات ہوئے لیکن نہ تو کوئی فلم بنی اور نہ ہی میڈیا پر کوئی بحث چھڑی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی میں منشیات کے خلاف عالمی دن کے موقعے پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کیا۔ وہ پاکستانی دستاویزی فلم ساز شرمین عبید چنائے کی تیزاب کے حملوں کا شکار ہونے والوں سے متعلق بنائی گئی ڈاکیومینٹری فلم ’سیونگ فیس‘ کا تذکرہ کر رہے تھے، جسے آسکر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
ڈی جی رینجرز سندھ کا کہنا تھا: ’ہمارے ملک میں تیزاب پھینکنے کے تین واقعات سامنے آئے تو اس پر شرمین عبید نے فلم بنا لی اور اس پر انہیں آسکر ایوارڈ بھی مل گیا۔ لندن میں پچھلے سال تیزاب پھینکنے کے 800 سے زائد واقعات ہوچکے ہیں مگر ان پر کوئی فلم نہیں بنی بلکہ یہ موضوع ان کے میڈیا سے بھی غائب رہا۔‘
اس بیان کے بعد یہ موضوع میڈیا پر کافی زیر بحث رہا، تاہم لندن میں تیزاب سے حملوں کے واقعات کے ڈیٹا سے لاعلمی کے باعث کئی حلقوں میں ان اعداد و شمار سے اختلاف یا ان پر تبصرہ نہیں کیا گیا مگر پاکستان میں صرف تین کیسز سامنے آنے کی بات پر کافی تعجب کا اظہار کیا گیا۔
راقم الحروف نے بھی ذاتی طور پر برطانیہ میں مقیم ایک صحافی دوست سے اس کا ذکر کیا جو بی بی سی ورلڈ سروس کے ڈس انفارمیشن مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ میں اہم عہدے پر فائز ہیں، تاہم وہ سوچ میں پڑگئیں کیوں کہ انہوں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ لندن میں ہی گزارا ہے اور وہ اس شہر کو اچھی طرح جانتی ہیں۔ انہوں نے کہا: ’800 تو حقیقت سے زیادہ بڑا نمبر لگ رہا ہے، آپ کو خود اس کی جانچ کرنی چاہیے۔‘
اس کے بعد ہم نے ٹھانی کہ لندن اور پاکستان بھر میں ہونے والے تیزاب پھینکنے کے واقعات کی اصل تعداد کے متعلق جانا جائے۔
اس حوالے سے لندن میٹروپولیٹن پولیس کی جانب سے 2019 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ سامنے آئی، جو ایسے جرائم کا احاطہ کرتی ہے جن میں تیزاب یا اسی نوعیت کے کسی کیمیکل (جو انسان کی جلد کو جلانے کی صلاحیت رکھتا ہو) سے حملہ کیا گیا ہو۔ اس رپورٹ میں لندن میں ہونے والے ایسے جرائم کا 2002 سے لے کر 2019 تک کا ڈیٹا موجود ہے۔
لندن میٹروپولیٹن پولیس کی تازہ ترین رپورٹ میں موجود ڈیٹا کے مطابق لندن میں 2019 میں تیزاب یا دیگر کیمیکلز کے ذریعے کسی کو جلانے کے جرائم کی تعداد 293 ہے۔ اس تعداد میں دو طرح کے جرائم شامل ہیں۔ پہلے وہ جن میں چوری، ڈکیتی یا کسی اور جرم میں تیزاب کا استعمال ہوا ہو، ان کی تعداد 41 ہے اور دوسرے وہ جرائم جن میں خاص طور سے کسی شخص کو نقصان پہنچانے یا جلانے کے لیے تیزاب پھینکا کیا گیا ہو، انہیں اس رپورٹ میں پرتشدد جرائم کہا گیا ہے اور ان کی تعداد 123 ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق لندن میں تیزاب یا دیگر خطرناک کیمیکلز کا شکار ہونے والے افراد میں 60 فیصد مرد اور 38 فیصد خواتین شامل ہیں۔ عمر کے تناسب سے ان میں 20 سے 29 سال کی عمر کے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جن کی تعداد تقریباً 32 فیصد ہے۔ اس ڈیٹا میں ایک سے نو سال کی عمر کے بچوں اور دس سے 19 سال کے نوجوانوں کی تعداد سب سے کم یعنی صرف آٹھ فیصد سے بھی کم ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس لندن کی رپورٹ میں تیزاب پھینکے والے مبینہ مجرموں کا ڈیٹا بھی شامل ہے، جس کے مطابق تیزاب، بلیچ یا دیگر خطرناک کیمیکلز سے لوگوں کو نقصان پہنچانے والے افراد میں سب سے زیادہ تعداد مردوں کی ہے۔ ان میں 57 فیصد مرد اور 14 فیصد خواتین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عمر کے اعتبار سے 20 سال سے 29 سال کی عمر کے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو 25 فیصد کے قریب ہے۔
اس رپورٹ کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ لندن میٹروپولیٹن پولیس کی جانب سے 2019 میں شائع کی گئی رپورٹ میں موجود تعداد یعنی 293، ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے بتائی گئی تعداد یعنی 800 سے بہت کم ہے۔
تاہم 800 کی یہ تعداد پوری طرح غلط بھی نہیں ہے، بس تین سال پرانی ہے۔ لندن میٹروپولیٹن پولیس کی ہی رپورٹ کے مطابق 2017 میں تیزاب یا دیگر خطرناک کیمیکلز پھینکنے کے کیسز کی کل تعداد 849 تھی جبکہ 2018 میں یہ تعداد 910 ہے، مگر 2019 میں اس میں کافی حد تک کمی آئی اور یہ تعداد 293 ہوگئی۔
پاکستان میں کیا صورت حال ہے؟
ڈی جی رینجرز سندھ نے اپنی تقریر میں بتایا تھا کہ پاکستان میں تین کیسز سامنے آنے کے بعد شرمین عبید چنائے نے اس پر ایک ڈاکیومنٹری فلم بنائی تھی جسے آسکر ایوارڈ بھی ملا۔
عورت فاؤنڈیشن کراچی آفس کی ریزیڈنٹ ڈائریکٹر مہناز رحمٰن نے اس حوالے سے گفتگو میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم کسی غلط چیز کا جواز اس لیے پیش نہیں کرسکتے کیوں کہ دوسری جگہ وہ زیادہ غلط ہے۔ جو غلط ہو وہ غلط ہے چاہے وہ ایک ہو یا دس ہو۔ خواتین پر جو ظلم و تشدد ہوتا ہے، اس کی سب سے بد صورت اور خوفناک شکل تیزاب پھینکنا ہے۔ اس سے بڑا ظلم عورت پر ہو نہیں سکتا کہ اس پر تیزاب پھینک دیا جائے۔ اس کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔ وہ پوری عمر ایک عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ سمجھنا احساس کمتری بھی ہے کہ اگر تیزاب پھینکنے کا جرم کسی مغربی ملک میں ہو رہا ہے تو ہمارے ملک میں بھی ہوتا رہے۔ اس بات کی کوئی منطق ہے ہی نہیں۔ میں تیزاب پھینکنے کو بدترین جرم سمجھتی ہوں، پاکستان کا کسی اور ملک سے موازنہ کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ پاکستان میں تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کئی کیسز میں مظلوم کو تیزاب پھینکے والے ملزم سے ہی شادی کرنی پڑ جاتی ہے اور کیس یا تو درج ہی نہیں ہوتا یا پھر واپس لے لیا جاتا ہے۔‘
رواں سال پاکستان میں تیزاب پھینکنے کے واقعات کی تعداد جاننے کے لیے ہم نے ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن (اے ایس ایف) پاکستان سے رابطہ کیا۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو 2006 سے تیزاب پھیکنے کے واقعات کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب اے ایس ایف کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان میں نو افراد حادثاتی طور پر تیزاب سے جھلسے جبکہ تیزاب سے حملے کے صرف چھ کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان نو افراد میں سے پانچ خواتین ہیں اور چار مرد۔
جغرافیائی اعتبار سے رواں سال جنوبی پنجاب میں پانچ اور وسطی پنجاب میں چار افراد حادثاتی طور پر تیزاب سے جھلسے۔ اس کے علاوہ تیزاب سے حملوں کے واقعات جنوبی پنجاب میں چار تھے اور وسطی پنجاب میں دو۔ اے ایس ایف کے مطابق رواں سال دیگر صوبوں میں اس کے علاوہ کوئی اور کیس ریکارڈ نہیں ہوا۔
وزارت انسانی حقوق کی زیریں کمیٹی نیشنل کمیشن برائے مقام نسواں کی رکن سندھ نزہت شیریں کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں تیزاب سے حملوں کے کیسز تو بہت ہوتے ہیں مگر ان کی رپورٹنگ بہت کم ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’بعض کیسز میں تیزاب سے جلنے والے افراد کی موت کی صورت میں ان کے گھر والے مقدمہ دائر نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات غریب طبقے میں ہوتے ہیں جن میں رشتےداری اور پیسے کے لین دین کے باعث معاملہ وہیں دب جاتا ہے اور کیس درج نہیں ہوتا۔ پیسے کی لین دین سے گواہی بدل جاتی ہے، واقعہ بدل جاتا ہے اور معافیاں ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں تیزاب سے جلنے کے اتنے کیسز سامنے نہیں آتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں کم کیسز رپورٹ ہونے کے حوالے سے عورت فاؤنڈیشن کی مہناز رحمٰن نے بتایا: ’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تیزاب سے جلنے والے افراد اور خاص طور پر خواتین بہت زیادہ معاشرتی دباؤ کا شکار رہتی ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ متاثرین کی بہت مدد کرنے کے باوجود بھی آخر میں انہیں اسی شخص سے شادہ کرنی پڑتی ہے یا اسے معاف کرنا پڑتا ہے جس نے ان پر تیزاب پھینکا تھا۔‘
ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق تیزاب سے جلنے والے افراد کی تعداد نو ہے لیکن ان میں سے بھی صرف چھ کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان کیسز میں سے کوئی بھی کیس پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 336، 302 اور 324 کے تحت درج نہیں ہوا۔ نو میں سے ایک کیس ایسا ہے جس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ سات لگائی گئی جبکہ تین کیسز ایسے ہیں جن میں لگنے والی دفعات نامعلوم ہیں۔
نیشل کمیشن برائے مقام نسواں کی رکن سندھ نزہت شیریں کا کہنا تھا کہ ’تیزاب سے حملوں کے کیسز میں ایف آئی ار رجسٹر کروانے کا عمل بھی بہت مشکل ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال نوابشاہ میں تیزاب سے جلنے والی خاتون ثمینه کے لیے میں خود ان کے ساتھ ایف آئی آر درج کروانے پولیس تھانے گئی تھی۔ ثمینہ کی ساس نے ان پر تیزاب پھینکے کے بعد انہیں آگ بھی لگا دی تھی اور وہ دو دن تک ان زخموں کے ساتھ ایک کمرے میں بند رہیں۔ ثمینہ کو جھلسی ہوئی حالت میں ہم پولیس تھانے لے کر گئے تو ہمیں کہا گیا کہ ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے تحقیقات ہوں گی کہ آیا وہ تیزاب سے جلی بھی ہیں یا نہیں۔ اس عمل کو مکمل ہونے میں پورے دو ماہ لگ گئے اور ہمارے کافی اصرار پر پولیس نے دو ماہ بعد ثمینہ کی ایف آئی آر درج کی۔ جب کیس درج کروانے کا عمل ہی اتنا مشکل ہوگا تو لوگ کیسے سامنے آئیں گے؟‘
ان کا مزد کہنا تھا کہ ’علاج کے دوران ثمینہ کہتی رہیں کہ وہ اپنے شوہر، ساس اور سسر کو کبھی معاف نہیں کریں گی اور نہ ہی ان کے ساتھ رہیں گی مگر ان کی بہن کے شوہر نے ثمینہ کے ساس سسر (جو ان کے بہنوئی کے سگے ماموں مامی تھے) سے پیسے لے کر معاملات آپس میں طے کرلیے اور ثمینہ سے اپنے شوہر اور ساس سسر کو معافی دلوا دی۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان میں تیزاب گردی کے شکار افراد سامنے کیوں نہیں آتے۔‘
عورت فاؤنڈیشن کی مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ ’البتہ یہ بات بھی سچ ہے کہ گذشتہ سالوں کے مقابلے میں پاکستان میں تیزاب پھینکنے کے کیسز کی تعداد میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، مگر میں کہتی ہوں کہ ایک بھی کیوں ہے۔ ایک ہو یا دس اس کا کوئی جواز نہیں کہ اگر کہیں اور تیزاب پھینکے کے واقعات زیادہ ہورہے ہیں اور ہمارے ملک میں کم تو اس لیے یہ ہونا ٹھیک ہے؟‘