پاکستان کے قبائلی ضلع مہمند کے نوجوان طالب علم حمیداللہ مہمند نے غازی بیگ کے علاقے میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت ڈرگ ٹریٹمنٹ سینٹر بنایا ہے۔
ان کی خواہش ہے کہ وہ منشیات کے استعمال سے ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے ایک ہسپتال بھی بنائیں۔
تحصیل حلیمزئی کےعلاقے شاتی کور سے تعلق رکھنے والے طالب علم حمیداللہ مہمند نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’ہمارے علاقے میں کافی عرصے سے منشیات کے اڈے قائم ہیں اور دور دراز علاقوں سے بھی لوگ منشیات خریدنے یہاں آتے ہیں۔‘
’میں جماعت نہم میں پڑھتا تھا جب مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ کیوں اس طرح کرتے ہیں۔ علاقے میں منشیات اتنی عام تھیں کہ صبح ایک بندہ بیدار ہوتا تھا اور اپنے بچے کو دو سو روپے دے کر کہتا تھا کہ میرے لیے پاؤڈر لے آؤ تو وہ بچہ لا کر اپنے باپ کو دے دیتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ آہستہ آہستہ انہوں نے منشیات فروشوں کے خلاف لوگوں کو اکھٹا کیا اور جب وہ پہلی بار احتجاج کے لیے بازار میں گئے تو لوگ ان پر ہنسنے لگے تھے کہ یہ پاگل ہے۔ ان کے بقول انہوں نے ان سے کہا کہ ’چرس حرام نہیں ہے یہ تو سارے لوگ پیتے ہیں۔‘
حمیداللہ نے بتایا کہ تقریباً چار سال مسلسل کوششوں کے بعد مقامی لوگوں کے تعاون سے یہاں سے منشیات کے اڈے ختم ہوئے ’جس کے بعد میں نے سوچا کہ ایک ڈرگ ری ہیبلیٹیشن سینٹر کا افتتاح کیا جائے جس میں منشیات سے متاثرہ لوگوں کا علاج ہوسکے۔‘
اانہوں نے کہا کہ اس مٹی کی خاطر اور ملک کی خاطر انہوں نے سحر ویلفیئر ٹریٹمنٹ سینٹر کے نام سے رواں سال فروری میں بحالی کا مرکز کھولا ہے جس میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کا کام جاری ہے۔
حمیداللہ مہمند نے کہا: ’ہمارے پاس 25 مریض ہیں جن میں سے 14 صحت یاب ہو چکے ہیں اور ان کا علاج مکمل ہوا ہے۔ یہاں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جن میں ڈاکٹرز، بچے اور عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ٹریٹمنٹ سینٹر میں ایک ڈاکٹر آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کی وجہ سے منشیات کے عادی ہوئے تھے۔
حمیداللہ کا اس مریض نے بتایا کہ ان کا علاقہ علاقہ کریڑجو دہشت گردی سے متاثر ہے وہ وہاں اپنے کام کے دوران ڈپریشن کا شکار ہوگئے تھے، وہ اسی حالت میں نشے کے انجیکشنز لگانے لگے تھے لیکن اب ان کی بحالی کا کام جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے سینٹر میں ایک شخص بحال ہوا ہے جس کی ماربل کی 11 کانیں تھیں۔ اس کے علاوہ ایک لڑکے نے سوشیالوجی اور دوسرے نوجوان مریض نے اکنامکس پڑھی ہوئی تھی اور دیگر بہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی آئس کے نشے میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حمیداللہ نے بتایا: ’اس وقت ہمارے پاس تین بچے ہیں جو کہ نابالغ ہیں لیکن سینٹر میں جگہ کم ہونے کی وجہ سے ہمیں بچے رکھنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔‘
طالب علم حمید اللہ نے کہا کہ کچھ دن قبل ایک مقامی شخص نے اپنی بیوی کی نشے کی عادت کا بتایا ہے۔ اس طرح ضلعہ مہمند میں حمیداللہ کے مطابق کم از کم 48 خواتین نشے کی عادی ہوچکی ہیں لیکن ان کے پاس عورتوں کی بحالی کے لیے جگہ نہیں ہے۔
ری ہیبلیٹیشن سینٹر میں صرف 50 سے 55 مردوں کی گنجائش ہے۔
حمیداللہ نے بتایا: ’اب ہم یہی کوشش کر رہے ہیں کہ تحصیل غلنئی میں ایک ڈرگ ہسپتال بنائیں اور یہاں کی جو خواتین ہیں ان کا علاج کروائیں تاکہ میل کے ساتھ ساتھ فی میل کا بھی علاج کیا جا سکے۔‘
عورتوں میں نشے کے رجحان کی وجہ
ٹریٹمنٹ سینٹر کے چیف ایگزیکٹیو حمیداللہ مہمند نے کہا: ’آئس کا نشہ جنسی طاقت کو عارضی طور پر برھا دیتا ہے تو مرد آئس کے نشے میں مبتلہ ہوکر اپنی بیوی سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے اور وہ اپنی بیوی کو بھی نشہ دیتا ہے تاکہ وہ بھی اس کا بھرپور ساتھ دے لیکن دو مہینے بعد دونوں کی جنسی قوت ختم ہو جاتی ہے۔‘
یہ سینٹر باجوڑ، دیر اور مہمند کے علاقے کا واحد سینٹر ہے لہذا یہاں بہت دور درو سے لوگ آتے ہیں جن سے پیار محبت سے نمٹا جاتا ہے جبکہ دیگر سینٹرز میں لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کی اطلاعت بھی ملتی ہیں۔
ٹریٹمنٹ سینٹر میں نشے سے متاثرہ افراد سے ملاقات کے لیےعلاقے کے مشران آتے ہیں اور دو گھنٹے کلاس لیتے ہیں۔ صرف علاقے کی روایات کے بارے میں باتیں بتاتے ہیں اور تین دفعہ اسلامی سکالرز آئے ہیں۔
حمیداللہ خود بھی موٹیویشن کی کلاس لیتے ہیں اور رات کو دل بہلانے کے لیے موسیقی کا پروگرام ہوتا ہے جس سے مریض دل کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں۔
ٹریٹمنٹ سینٹر سے فارغ ہونے والے افراد سے رابطہ رکھا جاتا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ دوبارہ نشے کی طرف راغب ہوجائیں۔
ٹریٹمنٹ سینٹر کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟
قبائلی نوجوان حمید اللہ نے کہا: ’مہینے میں ایک دو بار ڈی ایچ او صاحب میڈیکل کیمپ کرتے ہے اس طرح مہینے میں ایک دو بار کمانڈنٹ صاحب آٹا یا دال بھیج دیتے ہیں اسی طرح ڈرگ انسپیکٹرز تھوڑی سی ادویات دے دیتے ہیں۔‘
’اگر کسی مریض کے گھر والے مدد کرسکتے ہیں تو ان سے 10 بارہ ہزار روپے لے کر ان کا ٹریٹمنٹ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے ساتھ آٹھ افراد بھی کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ بھی دینی ہوتی ہے۔‘
حمیداللہ نے بتایا کہ کبھی کبھار علاقے کے مالدار افراد سے مدد حاصل کر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔
حمیداللہ مہمند نے بتایا کہ ان کے ساتھ زیادہ تر نوجوان ہیں جن کا جذبہ ہے کہ وہ اس پیارے ملک کی خاطر یہاں سے منشیات کا خاتمہ کریں گے۔