گاڑی کو جیسے دونوں ہاتھوں سے کسی نے اٹھایا اور دوبارہ بیچ سڑک پہ رکھ دیا۔۔
کافی دیر مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ دس منٹ تک اس شدید برستی بارش اور کالی سیاہ رات میں خاموشی سے چلاتا رہا، اس کے بعد ایک قریبی دوست کو فون کیا، اسے بتایا۔۔۔ بات کرکے لگا کہ ہاں زندہ ہوں۔ تھوڑا آگے ریسٹ ایریا تھا، ادھر گیا، بریک لگنے اور گاڑی رک جانے کا بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔ مطلب کیسے؟ وہ گاڑی جو دس منٹ پہلے تک ایک اتھری بے لگام عربی گھوڑی تھی وہ رک ہی کیسے گئی؟
نیچے اترا، اپنی سائیڈ سے چیک کیا، سامنے سے دیکھا، نیچے جھک کے دیکھا، دوسری سائیڈ کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ خراش تک نہیں آئی تھی گاڑی کو۔ واش روم کے لیے جانے لگا تو پتہ چلا کہ جوگرز مکمل گیلے ہیں۔ پانی گاڑی کے اندر تک آ گیا تھا۔ چپل نکالی، وہ پہنی، گیا، واپس آیا، باہر جو بچہ بیٹھا تھا اسے ایک بڑا نوٹ پکڑایا ۔۔۔ اسے کہا کہ بیٹا مجھے اب تک یقین نہیں آ رہا کہ بچ گیا، تو بس اس خوشی میں جا کے شاندار ڈنر کھڑکایا جو مرضی کر، فقیر بچ گیا، دعا کر بچا رہے۔ وہ میری شکل دیکھے میں اسے دیکھوں۔ اس نہ ہونے والے حادثے کے بعد وہ پہلا انسان تھا جس کی میں نے شکل دیکھی اور اس لمحے صرف کسی کو دیکھ لینا بھی کیا اچھا لگا، نہیں، آپ سمجھ نہیں سکتے۔ سنانا پڑے گا۔
ویک اینڈ تھا، لاہور جانا تھا، سوچا شام کو نکل جاؤں گا، دن میں کام مکائے اور سورج غروب ہونے لگا تو بھائی طلوع ہو گیا موٹر وے پہ۔ رات کو ان کے کیمرے بھی اتنا زیادہ کام نہیں کرتے تو شرفا عموما ایک سو چالیس تک کی سپیڈ آرام سے نپ لیتے ہیں۔ اس وقت بارش کا نام و نشان نہیں تھا، آتی گرمیاں تھیں اور صاف آسمان۔ پورن چند وڈالی گا رہے تھے، میں ناتی دھوتی رے گئی، کوئی گنڈھ سجن دل بہہ گئی، سفر ان کے ساتھ ساتھ بہتا چلا جا رہا تھا، ہموار، ایک دم سیدھا، پرسکون۔
کلر کہار میرے لیے مائل سٹون ہے۔ جہاں سے بھی آؤں اور جدھر بھی جانا ہو، اسے پار کر لیا تو لگتا ہے کہ ایک حصہ ہو گیا پورے سفر کا۔ تو بس پہاڑ شروع ہوئے، دس منٹ بعد ختم ہوئے اور سامنے جو اترتا ہوں تو ایک دم گھنے بادل، ایسے کہ بس تلے ہوئے برسنے پہ۔ بارش وارش اپنی سمجھ میں نہیں آتی سفر کے دوران، مجبوری ہے تو بابا چلے گا ورنہ چنگا بھلا رومینٹک موڈ جی ٹی روڈ یا موٹر وے کی بارش میں غارت ہو جاتا ہے۔ تو بس وہ ہونے کو تھا۔
اور ہوا، تھوڑا آگے آیا تو ایسی بارش کہ جیسے پورے پاکستان کے نلکے رب نے موٹر وے پہ کھول دئیے ہوں! پندرہ بیس منٹ اسی میں چلتا رہا۔ بتیاں کدھر جلتی ہیں انٹرچینج کے علاوہ موٹر وے پہ، گھپ اندھیرا، شدید بارش، چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے۔ اچھا بارش میں سپیڈ اپنی کم ہی رہتی ہے۔ اس وقت بھی اسی نوے کی رفتار تھی، آگے والی کروزر کی لائٹوں کے پیچھے لگ گیا اور سکون سے چلنے لگا۔ بارش کی شدت کوئی انیس بیس کم ہوئی تو ریلیکس ہو گیا۔
اچانک گاڑی مڑی دائیں طرف اور بس لگتا تھا کہ ڈوائیڈر میں لگنے والی ہے۔ ٹو وے سڑک کے درمیان جو سیمنٹ کی چھوٹی سی دیوار ہوتی ہے بس وہ، تو انتہائی دائیں جانب گاڑی مڑتی جا رہی ہے، شررررررررر کی ایسی آواز آئی جیسے میری سائیڈ کا دروازہ اور پچھلے والا حصہ کسی نے پورا کاٹنا شروع کر دیا ہے۔ اب مجھے یقین تھا کہ گاڑی لگ چکی ہے ڈیوائیڈر میں اور بس رگڑیں کھاتی اس سے چپکی آگے جا رہی ہے۔ بریک لگاتا ہوں وہ نہیں لگتی، سٹیئرنگ بائیں موڑتا ہوں وہ نہیں مڑتا، پورا زور لگا رہا ہوں، سٹیئرنگ نہیں مڑ رہا۔ اتنا زور لگایا کہ ماتھا میرا بیک ویو مرر کے ساتھ لگا ہوا ہے گاڑی کو دوسری سائیڈ پہ کھینچنے کے چکر میں۔ دو بار بجلی کڑکی ہے ۔۔۔ مجھے کیسے یاد رہا اتنی مصیبت میں؟ اس لیے کہ عین فلمی سین تھا۔ جو کچھ وہ چھتیس سو ایفیکٹ لگا کے فلم بند کرتے ہیں ادھر اصلی والا ہو رہا تھا۔ تو وہ جو فلیش تھے لائٹ کے، ان میں سڑک تالاب لگ رہی تھی۔ دو جھماکے اور پانی ہی پانی۔
ایک دم گاڑی کو جیسے دونوں ہاتھوں سے کسی نے اٹھایا اور دوبارہ بیچ سڑک پہ رکھ دیا۔۔
سٹیئرنگ چھٹا، گاڑی تیزی سے بائیں طرف کو مڑی، مڑتی چلی گئی، قریب تھا کہ موٹر وے سے اترتی اور کچے میں غرق ہو جاتی کہ دوسری طرف دوبارہ کھینچی گئی اور بالکل سڑک کے بیچ ہموار چلنے لگی۔ تین کاریں اور ایک بس پیچھے تھی، وہ بھی اتنے فاصلے پہ تھے کہ ایکدم بائیں جانے پہ مجھ سے نہیں ٹکرائے لیکن میری گاڑی واپس سڑک کے بیچ کیسے آئی یہ استاد جی مجھے نئیں یاد۔ ہاں اس کھینچا تانی کے بعد ایک مہینے تک کندھے اور بازو درد کرتے رہے، گھر نہیں بتایا، سمجھنے میں لگا رہا کہ ہوا کیا تھا۔ سمجھ آ گئی تو پھر ہلکا پھلکا بتا دیا۔
بھائی جان موٹر وے اب بالکل ناقابل اعتبار ہے۔ گاڑیوں کے ایک فیس بک فورم پہ عین ایسا ہی واقعہ لکھا دیکھا تو اپنی کہانی سمجھ آ گئی، مگر لکھنے والے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ انہوں نے کیا لکھا، مختصراً انہی کے لفظوں میں دیکھیے۔
’میں پشاور سے صوابی جا رہا تھا، بارش تھی۔ صوابی انٹرچینج کے پاس پانی کے ایک چھوٹے تالاب کی وجہ سے گاڑی تھوڑی سی گھومی، ڈیوائیڈر وال کے ساتھ لگی اور پھر کئی مرتبہ گھڑی کی سوئی کی طرح گھومتی ہوئی دور جا کے ٹکرائی، چاروں ٹائر پھٹ گئے، رم ٹوٹ گئے۔ میں اور کزن الحمداللہ محفوظ رہے میرے سر پہ چوٹ آئی، باقی جسم انتہائی دباؤ لگنے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، کھڑا ہونا محال تھا اور دماغ تقریباً ماؤف۔ اوپر سے بارش وہ بھی سردیوں کی۔ گیلے کھڑے ہیں، گاڑی سڑک کے بیچ پڑی ہے۔ بارش اور ٹھنڈ سے جسم سخت اور دماغ کام چھوڑ گیا۔‘ لکھنے والے مبشر اکرم تھے۔ بہرحال جان بچ گئی، شکر!
میرے ساتھ یہ سب کچھ کہاں ہوا، فیصل آباد انٹر چینج سے کوئی دس منٹ پہلے والی سڑک۔ یعنی اگر آپ اسلام آباد سے لاہور جاتے ہیں تو دس منٹ پہلے فیصل آباد انٹرچینج سے، یہ والا حصہ آتا ہے سڑک کا، جو اونچا نیچا ہے۔ بارش زیادہ ہوئی، سڑک پہ بھر گیا پانی، گاڑی اس نیچے والے حصے میں گئی تو بس آگے پانی کے دباؤ میں ہاتھوں سے نکل گئی۔ میں بچ گیا، مبشر اکرم بچ گئے، خدا کرے آپ بھی بچے رہیں لیکن یہ سب کچھ اب معمول ہے، موٹر وے کا لیول اب وہ نہیں ہے جو شروع میں تھا۔
اس دن کے بعد جو نتیجہ میں نے اپنے لیے نکالا وہ یہ ہے۔
- گاڑی سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اوپر نہ لے کر جائیں کیونکہ اب چھوٹے گڑھے بھی آپ کا استقبال کرتے ہیں موٹر وے پر۔
- بارش میں ساٹھ کی سپیڈ کافی ہے، جہاں پانی دیکھیں مزید سلو ہو جائیں۔
- رات کو نہ ہی سفر کریں تو بہتر ہے، موٹروے کی سائیڈوں پر بعض جگہ باڑیں نہیں ہیں تو جانور آ سکتا ہے سامنے اور نظر اکثر بعد میں آتا ہے۔
- اگر آپ صبح تڑکے نکلتے ہیں تو ساٹھ ستر کی سپیڈ میں کم پیٹرول اور ٹول ٹیکس پہ سفر کرنے کے لیے جی ٹی روڈ کا تجربہ کریں۔
- آپ کے پاس بڑی ایس یو وی ہے تو بھی تھوڑا بریکوں کا دھیان رکھ کے سپیڈ بڑھائیں، جو برانڈ اس وقت سب سے زیادہ مشہور ہے اور بک رہا ہے اس کی بریکوں میں فالٹ موجود ہے۔
- انٹرنیشنل لیول والی کارپٹنگ چونکہ اب نہیں ہے موٹر وے پر، اس لیے گرمی سے ٹائر پھٹنے کا امکان بھی زیادہ ہے، تو رفتار بڑھاتے ہوئے یہ سب کچھ دماغ میں رکھیں۔
سو باتوں کی ایک بات، پہلے چار، ساڑھے چار گھنٹے میں بھائی اسلام آباد سے لاہور پہنچ جاتا تھا لیکن سر میں شدید درد رہتا تھا رات تک۔ اب پانچ گھنٹے معمول ہیں، زیادہ بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ درد اب نہیں ہوتا۔ وہ شاید بلڈ پریشر تھا جو تیزرفتاری کے چکر میں ہائی ہو جاتا تھا۔ ابھی تھکن جتنی مرضی ہو پر شکر ہے وہ حال نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لمبا ہو گیا، ضروری تھا، کمنگ بیک ٹو دا پوائنٹ۔۔۔
تو اس نہ ہونے والے حادثے کے بعد وہ پہلا انسان تھا جس کی میں نے شکل دیکھی، اور اس لمحے صرف کسی کو دیکھ لینا بھی کیا اچھا لگا، نہیں، آپ سمجھ نہیں سکتے۔ وہ لڑکا، واش روم کی صفائی پر جو مامور تھا، وہ اس وقت شاہ رخ خان سے زیادہ سوہنا لگ رہا تھا۔ صحت، ہاتھ، پیر، آنکھ، ناک سلامت، سامنے ایک جیتا جاگتا آدمی، بہت سے لوگ، آس پاس کے انسان، ان سب کو محض دیکھ سکنا، اس رونق میلے کا حصہ بنے رہنا، یہ کتنی بڑی نعمت ہے، آپ شاید ہی سمجھ سکیں۔
یہ بس وہ بندہ بتا سکتا ہے جو کئی برس سے ایک ہی بستر پہ ہو، اور ایسے حادثے جان لیوا نہ ہوں تو زیادہ خطرناک ہوتے ہیں!
مالک امان میں رکھے، مولا مدد۔