اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں نوجوان لڑکے اور لڑکی پر جنسی تشدد کے کیس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم عثمان مرزا کو ٹک ٹاک سٹار بننے کا شوق ہے۔
اس مقدمے کے بارے میں ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے کہ یہ واقعہ گذشتہ برس نومبر میں پیش آیا تھا۔
ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ مرکزی ملزم عثمان مرزا کو درحقیقت ٹک ٹاک سٹار بننے کا شوق ہے اور مشہور ہونے کے لیے ایسی حرکتیں کی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم عثمان مرزا ماضی میں بھی ٹک ٹاک پر ’گینگسٹر‘ بن کر وڈیوز ڈالتے رہے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس بدھ کو چئیرمین کمیٹی محسن عزیز کی صدارت میں ہوا۔
اس موقع پر ڈی آئی جی آپریشنز افضال کوثر نے اسلام آباد واقعے پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس کیس میں ٹرائل کی پروسیڈنگ ان کیمرہ ہوگی۔
’کوشش کررہے ہیں کہ جلد از جلد اس معاملے کو حل کریں لیکن کچھ لیبارٹریز سے رپورٹس آنے میں دیر لگتی ہے۔‘
اس بارے میں کمیٹی اراکین کا کہنا تھا کہ کہا کہ ’اس کیس کو مثال بنانا چاہیے، ٹک ٹاک کی وجہ سے مسائل بہت زیادہ ہوتے جارہے ہیں۔‘
ایس ایس پی انویسٹیگیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ ویڈیو میں جو دفعات لگائی گئی ہیں ان میں ’برہنہ کر کے پریڈ کرانا، حبس بے جا میں رکھنا، تشدد کرنا اور دھمکیاں دینے کی دفعات شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام ملزمان کا فون کا ڈیٹا لیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ جس شخص نے عثمان مرزا کو فون کرکے فلیٹ پر بلایا تھا وہ ملزم عثمان مرزا کا بھائی ہے اور تاحال فرار ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ موبائل میں کوئی اور ویڈیو کسی حوالے سے نہیں ملی۔
’متاثرہ لڑکی اور لڑکا منگیتر تھے۔ لڑکی ایم بی اے ہے اور نوکری کے انٹرویو کے لیے لاہور سے اسلام آباد آئی تھیں اور انہوں نے اپنے منگیتر سے رہائش کا بندوبست کرنے کے لیے کہا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’متاثرہ لڑکی کے منگیتر نے حافظ عطا جو ان کا جاننے والا تھا سے کہہ کر رہائش کا بندوبست کیا۔ حافظ عطا نے اس کمرے کی چابی ان کو دی اور کہا یہ میسر ہے لیکن جب وہ چابی لے کر چلے گئے تو سب نے دھاوا بول دیا۔‘
چئیرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے استفسار کیا کہ ایسی ویڈیوز وائرل کیوں ہوتی ہیں؟ جس پر کمیٹی میں موجود ڈائریکٹر سائبر کرائمز جعفر نے بتایا کہ ’اس کیس میں چھبیس جگہوں سے ویڈیو وائرل ہوئی، سولہ جگہ سے ڈیلیٹ کروائی، مزید کے لیے پی ٹی اے کو خط لکھا ہے کہ ڈیلیٹ کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب تو دھمکی بھی فون پر دی جاتی ہے سائبر کرائم بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق 2018 میں شکایات 18 ہزار تھیں اور اب لاکھوں میں ہیں۔‘
ڈائریکٹر سائبر کرائم نے مزید بتایا کہ ’ہمارے چھ زونز اور 15 سرکل کام کر رہے ہیں تاکہ درخواست گزارکی پہنچ آسان ہو سکے۔‘