دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد میں طے ’افغان امن کانفرنس‘ کے بارے میں سنا ہے لیکن انہیں (طالبان کو) مدعو نہیں کیا گیا۔
پاکستان نے جمعرات کو کانفرنس کے ملتوی ہونے کی قیاس آرئیوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس افغانستان میں امن کے لیے جاری کوششوں کو تیز کرے گی۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں 17 سے 19 جولائی تک شیڈول کانفرنس کی میزبانی کرنے کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ پاکستان افغان امن عمل میں مدد کرنے کے لیے تمام فریقوں سے رابطے میں ہے لیکن ’جہاں تک کانفرنس میں شرکت کا تعلق ہے طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ طالبان کئی بار پاکستان آ چکے ہیں اور ان سے افغان امن عمل کے تناظر میں تفصیلی مذاکرات ہو چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’امن کانفرنس‘ کا مقصد افغانستان میں تمام فریقوں سے امن عمل کے بارے میں رابطے اور مشورے کرنا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے افغانستان کے ایک اہم قصبے سپن بولدک پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ملحقہ سرحدی علاقے چمن میں اضافی سکیورٹی نفری بھیج دی ہے۔
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ ’انہوں (طالبان) نے سپن بولدک بارڈر کراسنگ کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ نے آج کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سپن بولدک میں پیش آئے واقعات کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز الرٹ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی اضافی نفری چمن سرحد پر بھجوا دی گئی ہے۔ ’ہم ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘
پاکستانی حکام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے سرحد کے افغان حصے پر قبضہ کرنے کے ایک روز بعد پاکستانی محافظوں نے جمعرات کو سرحد عبور کرنے کے خواہش مند سینکڑوں افراد کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
ایک سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’آج صبح تقریباً 400 مشتعل افراد نے زبردستی گیٹ عبور کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ہمیں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔‘
چمن کے ایک سینیئر سرکاری عہدے دار جمعہ داد خان نے کہا کہ اب صورت حال ’قابو میں‘ ہے۔
اس سے قبل پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ افغان طالبان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر جنوب میں محض سپن بولدک پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ضلع کرم میں واقع خرلاچی اور باجوڑ کراسنگ پر بھی کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے تاہم لوگوں کی آمدورفت جاری ہے۔
افغانستان امور سے متعلق ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے زیر قبضہ آنے سے ان سرحدی مقامات پر آمدورفت اور تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
شمال میں پاکستان کے سرحدی ضلع باجوڑ میں کراسنگ پر افغان طالبان نے قبضہ چند روز قبل کیا تھا۔
باجوڑ کے صحافی فضل الرحمٰن کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز نے سامان رسد نہ ملنے کی وجہ سے غاخی نامی چوکی خود ہی خالی کر دی تھی، جس کے بعد سے وہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
کرم میں خرلاچی بارڈر کراسنگ ایک مصروف تجارتی راستہ ہے۔ حکومت پاکستان نے گذشتہ برس پاکستان افغان تجارت کے فروغ کے لیے ایکسپورٹ پالیسی آرڈر 2020 میں ترمیم کے ذریعے خرلاچی سے افغانستان کے لیے برآمدات کی اجازت دی تھی۔ اس فیصلے کے بعد خرلاچی ایکسپورٹ لینڈ روٹ میں شامل کر لیا گیا۔
ادھر خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سپن بولدک کے بارے میں صورت حال واضح نہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز سرحدی چوکی کو واپس لینے کا دعویٰ کر رہی ہیں لیکن طالبان اسے مسترد کرتے ہیں۔
جنوبی صوبے قندھار کے ایک سینیئر سرکاری عہدے دار نے روئٹرز کو بتایا کہ افغان فورسز نے بدھ کو چند گھنٹوں بعد سرحدی قصبے میں علاقے کی مرکزی مارکیٹ، کسٹم اور دیگر سرکاری تنصیبات کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا۔
عہدے دار نے بتایا کہ سرکاری فورسز جو ابتدائی طور پر شہری اور سکیورٹی اہلکاروں کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے پسپا ہوئی تھیں، اب کلیئرنگ آپریشن کر رہی ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ خطرہ موجود ہے کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی تعداد علاقے میں افغان سکیورٹی فورسز سے زیادہ ہے۔
لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ان کے جنگجو اب بھی سرحدی چوکی پر قابض ہیں۔ انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ ’یہ محض پروپیگینڈا ہے اور کابل انتظامیہ کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔‘
تین ماہ کی جنگ بندی کی پیشکش
امریکی انخلا کے دوران افغانستان میں تیزی سے پیش رفت کرنے والے طالبان نے اپنے سات ہزار قیدیوں کی رہائی کے بدلے تین ماہ جنگ بندی کی پیش کش کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ بات افغان حکومت کے ایک مذاکرات کار نے جمعرات کو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتائی۔
طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل حکومتی وفد کے کلیدی رکن نادر نادری نے کہا: ’یہ ایک بہت بڑا مطالبہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل اپنے رہنماؤں کے ناموں کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تاہم دوحہ میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی کی کوئی تجویز نہیں دی گئی اور ’ہم نے چار مہینے قبل تشدد میں کمی کی تجویز دی تھی لیکن فریق نے اسے قبول نہیں کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تشدد میں کمی کی تجویز تین مہینوں کے لیے تھی۔ ’ہم اپنے قیدیوں کی رہائی اور ڈی لسٹنگ چاہتے تھے لیکن اب کوئی نئی تجویز پیش نہیں کی جا رہی۔‘