تعلیم کے شعبے سے وابستہ 31 سالہ انعم فاروق کا ایک امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے سیکولر معاشرے میں پرورش پا کر کم عمر میں ہی بین المذاہب ہم آہنگی پر کام شروع کیا۔
انہوں نے 21 سال کی عمر میں ہی ٹونی بلیئر فیتھ فاونڈیشن، تھری فیتھس فورم اور شئیرڈ روٹس فورم کو اس مقصد کے لیے منتخب کیا اور بین المذاہب ہم آہنگی کو آرٹ کے ذریعے فروغ دیتی رہیں۔
اس دوران انہوں نے امپیریل کالج سے گریجویشن بھی کی اور بعد میں یونیورسٹی کالج لندن سے ہسٹری آف آرٹ کا کورس بھی مکمل کیا۔
انعم کے مطابق ان کو بچپن ہی سے آرٹ سے لگن تھی۔ ان کو حال ہی میں دی فیمل آرٹ انسپو 2021 ایوارڈ، پراگ سے نوازا گیا۔ ان کے آرٹ ورک کو بین الاقومی پبلیکیشنز میں شائع کیا گیا اور بین الاقوامی نمائشوں میں بھی سراہا گیا۔
پاکستانی نژاد برطانوی شہری انعم کے مطابق آرٹ، فطرت، مذہب اور انسانیت کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ وہ نہ صرف آرٹسٹ ہیں بلکہ ایک مسلمان بھی ہیں۔ وہ آج کل کام کے سلسلے میں بورنیو میں رہائش پذیر ہیں۔ دوری کی وجہ سے انڈپینڈنٹ اردو نے ٹیلیفون کے ذریعے ان سے رابطہ کیا۔ سب سے پہلے تو ان سے یہی پوچھا کہ نوجوانی میں ان کو بین المذاہب ہم آہنگی کا خیال کیوں کر آیا؟
انڈپینڈنٹ اردو: 21 یا 22 سال کی عمر میں تو سنجیدہ کام کرنے کو عام طور پر آج کے نوجوان ترجیح نہیں دیتے۔ پھر مذہبی ہم آہنگی تو مشکل کام بھی ہے؟
انعم: میری تعلیم ایک مغربی معاشرے یعنی لندن میں ہوئی۔ تو مجھے اپنے مذہب سیکھنے کے لیے خود کوشش کرنی پڑی۔ میرے والد تو پہلے ہی فوت ہوگئے تھے اور جب میں بچی تھی تو اس وقت والدہ بیمار رہیں، وہ ہسپتال میں تھیں اور میرا خیال نہیں رکھ سکتی تھیں۔ میں 11 سال کی تھی کہ مجھے ایک خاتون ملی جو پہلے تو مسیحی تھی بعد میں بدھ مت بن گئی تھی۔ چونکہ میرا کوئی نہیں تھا اور ان کے بھی بچے نہیں تھے تو میں ان کی گود لیے بیٹی جیسی بن گئی۔ ان سے بحث کرنے کے لیے مجھے تحقیق کرنی پڑتی تھی اور مذہبی معلومات اکھٹی کرنی پڑھتی تھی۔
جب میں تھوڑی بڑی ہوئی تو میرے پاس اسلام اور ابراہیمی مذاہب سے متعلق کافی معلومات تھیں۔ اور میرے مذہب نے مجھے اپنی طرف راغب کر لیا تھا۔ مذاہب میں میری دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ اکثر اوقات اکیلی بھی رہتی کیونکہ اکلوتی تھی تو سوچنے کا موقع بھی زیادہ ملتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پڑھائی کے دوران ہی ابتدائی طور پر میں نے امپیریل کالج انٹر فیتھ سوسائٹی میں شمولیت اختیار کی جہاں مجھے حیران کن نقاشی اور مجسموں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے بے شمار مذہبی و ثقافتی مقامات جیسے کہ کوہ طور، کعبہ، مقام ابراہیم، مسجد قرطبہ، الحمرا، اٹلی، جامعہ مسجد حسن دوم ( کاسا بلانکا) میں ہے کے دورے بھی کیے۔ میں نے وہاں جاکر انکساری سیکھی۔ قرطبہ میں ایک عبادت گاہ ہے اور وہ جزوی طور پر چرچ اور جزوی طور پر مسجد ہے۔ وہاں دو قسم کی عبادتیں دیکھ کر عملی ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ میرے بچپن ہی میں دنیا کے مسائل کچھ اس طرح بن گئے کہ بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف میری توجہ چلی گئی۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ نے کب اور کس طرح آرٹ کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی پہ کام شروع کیا؟
انعم: مجھے کچھ معروف بین المذاہبی ہم آہنگی پر کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان میں ایک پراجیکٹ ایسا بھی تھا کہ میں لندن میں مسلمان، یہودی اور مسیحی کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے بزرگوں سے انٹرویو کرتی اور پھر ان کی کہانیاں پینٹنگ یا آرٹ کے ذریعے پیش کرکے ٹاور ہیملٹ لائبریری کی نمائش، ریڈ گیلری یا دیگر نمائشوں میں نمایا کرتی۔ اس کے علاوہ میں نے کلچر و مذہب کے پس منظر میں جنڈر ایشوز کو بھی پینٹنگ سے اجاگر کیا اور ان کی نمائش بھی ہوئی۔
انڈپینڈنٹ اردو: آپ نے مذہبی ہم آہنگی کے لیے آرٹ کا استعمال کیوں کیا؟
انعم: آرٹ کی زبان آفاقی ہے، ہر زبان و ثقافت کے لوگ اس کو سمجھ سکتے کسی بھی ترجمے کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ مشکل سے مشکل مسئلے کو آسان طریقے سے پیش کر سکتا ہے، اس میں تعصب کا جز بھی کم ہو جاتا ہے اور مشاہدہ کرنے والا مشبت انداز میں پیغام بھی سمجھ لیتا ہے۔ اس سے پیغام آسانی سے مختلف تہذیبوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اور پھر ہر میڈیم ایک اثر بھی رکھتی ہے مثلا وژول آرٹ کا اپنا ایک اثر ہے۔ اور پھر مشکل تصورات کوجیسا کہ ابراہیمی مذاہب کے درمیان مشترکہ عقائد کو آپ بہت آسانی سے ارٹ کے ذریعے سمجھا سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: افغانستان اور مشرق وسطی کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے لوگوں نے بھی دہشت گردی اور عدم برداشت و تشدد دیکھا اور جانیں بھی ضائع ہوئیں، آپ نے مشرق وسطی کا بھی سفر کیا اور پاکستان بھی آتی رہیں اور مغرب میں بھی کام کیا۔ مغربی معاشرہ اور پاکستانی معاشرے میں کیا فرق محسوس کیا خصوصا تشدد کی جب بات کی جائے؟
انعم: وہاں (مغربی معاشرہ) بھی مسائل ہیں جس طرح نسل پرستی کالا اور سفید وغیرہ۔ اس حوالے سے تحریکیں بھی چلی ہیں۔ مذاہب کے بھی مسائل ہیں لیکن وہاں ان مسائل کے حل کے لیے ایک تعلیمی نظام بھی چل رہا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں تعلیم کی کمی کی وجہ سے اس طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے دیہاتی علاقوں میں اکثر لوگ خاص کر خواتین تو قرآن ترجمے سے نہیں پڑھ سکتی۔ تو پھر گمراہی یا قیاس آرائیوں کو موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالی بھی تو حکم دیتا ہے کہ پڑھو اور سوچو۔ اور سیکھنے کے سفر میں رسمی و غیر رسمی تعلیم، تجربات، اور معا شرہ سب اہم ہوتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: پاکستان میں آرٹ ترقی اور ہم آہنگی کےحوالے سے کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟
انعم: ہم یہاں پرانی تہذیبوں سے سیکھ سکتے ہیں، یہاں کے روایتی اخلاقیات کے لیٹریچر یا فولک لیٹریچر سے سیکھ سکتے ہیں، اس سے ہم اخلاقی اقدار بھی سیکھ سکتے ہیں، بچوں کو سکھا سکتے ہیں۔
میں نے متحدہ عرب امارات میں دیکھا ہے کہ وہ اپنی پہچان کے بارے واضح طور پر جانتے ہیں، ان کو اس پر فخر ہے، ان کو اپنی تاریخ اور جڑوں کا پتہ ہے۔ اس معاشرے میں، میں نے استحکام دیکھا اور وہاں ہم آہنگی اور امن پایا جاتا ہے۔
آرٹ آپ کو ماضی سے جوڑتا ہے اور بہت کچھ سیکھاتا ہے، جس سے ترقی آسان ہوجاتی ہے۔ بچے اس سے تحقیق سیکھ سکتے ہیں۔ آرٹ تھراپی سے معاشرے میں تشدد کم ہوجاتا ہے، پھر اگر ہم اس کو اقدار سے منسلک کریں تو کردار سازی بھی ممکن ہے۔
آرٹ اپنے آپ ایک سائنس بھی ہے۔ پھر سکولوں میں آپ اس کو سیکھنے کے لیے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ جس سے تعلیم کے شعبے میں ترقی آئی گی۔ تخلیقی صلاحتیں بھی بہتر ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کے ثقافت میں بہت کچھ ہے، سارے پاکستان کی مثال ایک برادری کی طرح ہے اور اگر یہ سارے لوگ ہم آہنگی میں کام کریں تو ترقی اور مکمل امن و خوشحالی دور نہیں۔ اس وقت ایک نسل سے دوسری نسل کے درمیان ایک قسم کا فاصلہ ہے۔ یہ فاصلے پاکستان میں ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے ماضی سے جڑ سکیں اور آگے جا سکیں۔
کوئی شک نہیں کہ ثقافت اور آرٹ کے ذریعے ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں آرٹ مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔