بھارت کی تین ریاستوں اترپردیش، آسام اور کرناٹک میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مقامی حکومتوں نے آبادی پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔
ان تینوں ریاستوں میں مسلمانوں کی آبادی بالترتیب 19، 34 اور 13 فیصد کے آس پاس ہے۔
بھارتی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بعض ماہرین و تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ 'پاپولیشن کنٹرول لا' کا مقصد مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو مزید ہراساں کرنا ہے۔
ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے 'پوپولیشن کنٹرول لا' کا جو مسودہ پبلک ڈومین میں رکھا ہے اس کے مطابق دو سے زیادہ بچے رکھنے والے افراد سرکاری ملازمتوں، ملازمت میں ترقی، سرکاری مراعات اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے سے محروم ہو جائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مجوزہ قانون میں کسی کو پارلیمان اور اسمبلی انتخابات لڑنے سے نہیں روکا گیا جس کی ظاہری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اترپردیش کی اسمبلی میں بی جے پی کے 50 فیصد سے زیادہ اراکین ایسے ہیں جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں۔
قیاس کیا جا رہا ہے کہ مجوزہ قانون کے مسودے کو یوگی آدتیہ ناتھ کے آبائی شہر گورکھپور سے بی جے پی کے رکن پارلیمان روی کشن آنے والے بھارتی پارلیمان کے مون سون اجلاس کے دوران 'پرائیویٹ ممبرز بل' کے طور پر متعارف کریں گے۔
اس قیاس نے بحث کو جنم دیا ہے کہ روی کشن، جن کے خود چار بچے ہیں، کیسے دو سے زیادہ بچے رکھنے پر سزاؤں کی وکالت کر سکتے ہیں۔
جہاں اپوزیشن جماعتیں اور چند ہندتوا تنظیمیں بالخصوص وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اس مجوزہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں، وہیں امکان ہے کہ نریندر مودی کی مرکزی حکومت اس قانون کو پورے ملک میں نافذ کرے گی۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت 2027 تک چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے بڑا آبادی والا ملک بن سکتا ہے۔
اس عالمی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں چین کی آبادی 1.43 بلین جبکہ بھارت کی آبادی 1.37 بلین تھی۔
بھارت میں سیاسی ماہرین و تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ آبادی میں اضافے کو قانون سازی کے ذریعے نہیں بلکہ لوگوں کو تعلیم اور روزگار دینے سے روکا جا سکتا ہے۔
بقول ان کے جو بی جے پی حکومت والی ریاستیں 'پاپولیشن کنٹرول لا' نافذ کرنے کی باتیں کر رہی ہیں وہ لوگوں کو تعلیم اور روزگار فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں اور اب متنازع قانون بنا کر بعض مخصوص طبقوں کو اس کا نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔
ہدف مسلمان اور دلت
بھارت کے معروف صحافی، محقق و مصنف ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بی جے پی آنے والے وقت میں کسی نہ کسی طریقے سے اس قانون کا استعمال مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف کرے گی۔
'ان کو مسلمانوں، دلتوں اور دوسرے بچھڑے طبقوں سے پریشانی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی آبادی بڑھے۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اس قانون کو ان طبقوں کے خلاف استعمال کریں گے۔
'یہ لوگ چالاک اور شاطر ہیں۔ اترپردیش کی حکومت نے مجوزہ قانون کا جو مسودہ پبلک ڈومین میں رکھا ہے اس میں کسی بھی مخصوص مذہب کا نام نہیں لیا گیا۔ اگر کسی مذہب کا نام لیتے تو معاملہ عدالت میں جاتا۔ مگر یہ طے ہے کہ اس قانون کا شکار مسلمانوں اور نچلی درجے کے ہندوؤں کو بنایا جائے گا۔'
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کہتے ہیں کہ 2023 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ممکن ہے کہ ان لوگوں کو کامیابی نہ ملے لہٰذا جاتے جاتے وہ اپنے ادھورے کام پورا کرنا چاہتے ہیں۔
'پورے ملک بالخصوص اترپردیش میں لوگوں کو بہتر حکمرانی فراہم کرنے میں بی جے پی والے ناکام ثابت ہوئے۔ اب اس طرح کی شعبدہ بازی کر کے وہ ہندوؤں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے۔
'ان کی حکومت عوام دوست اقدامات بالخصوص لوگوں کو تعلیم اور روزگار فراہم کرنے کے لیے نہیں بنتی۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے کہ کسی طرح اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی بالادستی قائم رہے اور مسلمانوں کو ذلیل کیا جائے۔ لوگوں کو سہولیات میسر ہوں یا نہ ہوں یہ ان کے لیے معنی نہیں رکھتا۔'
مشہور عالم و مفکر مرحوم وحید الدین خان کے بیٹے ڈاکٹر ظفر الاسلام کا کہنا ہے کہ آبادی میں کمی اور اضافے کا براہ راست تعلق تعلیم سے ہے۔
'یہ بات ثابت ہے کہ جو پڑھے لکھے نہیں ان کے ہاں بچے زیادہ ہوتے ہیں۔ جو پڑھا لکھا ہوتا ہے وہ سوچتا ہے کہ مجھے بچوں کو بہتر تعلیم دینی ہے میرے کم بچے ہوں گے تو ان کو باآسانی پڑھا سکتا ہوں۔
'اس کے برعکس جو ان پڑھ ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ یہ بچے آنے والے وقت میں میرا سہارا بنیں گے اور مجھے کما کر دیں گے۔'
’600 سالہ اسلامی دور‘ اور مسلمانوں کی آبادی
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر شمس الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ عجیب بات تو یہ ہے کہ اترپردیش میں جو لوگ آبادی پر قابو پانے کے لیے قانون بنانے جا رہے ہیں خود ان کے کئی بچے ہیں۔
'اصل میں ان ہندووادی رہنماؤں کو پریشانی مسلمانوں سے ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر اس ملک میں مسلمان نہیں ہوتے تو یہ کچھ بھی کر کے پیدا کرتے۔ ان کی تو مسلمانوں کے بغیر سیاست ہی نہیں چل سکتی۔
'یہ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر 600 سال تک حکومت کی اور ہندوؤں کا قتل عام کیا۔ پھر کیا وجہ رہی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی اس مبینہ اسلامی دور میں بھی 22 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھی؟
'ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1872 میں ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر پہلی مردم شماری کرائی۔ اس مردم شماری کے مطابق اُس وقت مسلمانوں کی آبادی ساڑھے 21 فیصد تھی۔
'پھر جب آزادی کے بعد 1951 میں مردم شماری کرائی گئی تو مسلمانوں کی آبادی 9.8 فیصد جبکہ ہندوؤں کی آبادی 84.1 فیصد تھی۔ اتنی بڑی ہندو آبادی کو اتنی چھوٹی مسلمان آبادی سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
'امریکہ میں پچھلے 10 سال کے دوران ہندوؤں کی آبادی میں 69.37 فیصد جبکہ برطانیہ میں 43 فیصد اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اگر ان ممالک کے پشتنی باشندے یا عیسائی تنظیمیں مطالبہ کرنے لگیں کہ ہندوؤں کی آبادی کو بڑھنے نہ دو تو بھارتی نظریے سے ان کا مطالبہ حق بجانب ہے۔'
ڈاکٹر شمس الاسلام کا بھی ماننا ہے کہ آبادی میں اضافے کو روکنے کے مجوزہ قانون کا استعمال مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف ہو سکتا ہے کیوں کہ بقول ان کے ان دو طبقوں کے ووٹ انہیں بہت پریشان کرتے ہیں۔
'گائے، لو جہاد، ملک دشمنی کی لیبلنگ جیسے منصوبوں سے ان کی کوئی خاص مدد نہیں ہو پائی۔ مغربی بنگال اور تمل ناڈو کے انتخابات نے ان کو بتا دیا کہ اب ہندوؤں نے بھی ان کو ووٹ دینا بند کر دیا ہے۔
'بنگال میں تو ان لوگوں نے پروپیگنڈا کے معاملے میں آر ایس ایس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ممتا بینرجی کو بیگم کے نام سے مخاطب کیا یعنی کسی مسلمان کی بیوی۔
'عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ان کو نوکریاں دینی ہیں جو وہ دے نہیں پاتے۔ ان کو ایک نیا ایشو چاہیے تھا جو ان کو مل گیا۔'
اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
حیدرآباد دکن کی باوقار نلسار یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں کہ بی جے پی رہنماؤں کی آبادی پر قابو پانے کی باتیں 'دوسروں کو نصیحت، خود میاں فصیحت' کے مصداق ہیں۔
'اگر قانون بنانا ہی ہے تو اس میں یہ شق بھی شامل کر لیں کہ کوئی شخص پارلیمان یا اسمبلی کا رکن نہیں بن سکتا اگر اس کے دو سے زیادہ بچے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی کے 50 فیصد اسمبلی اراکین کے دو سے زیادہ بچے ہیں۔
'اعلیٰ قیادت کی بات کریں تو نریندر مودی چھ بھائی بہن ہیں۔ ایل کے ایڈوانی آٹھ اور یوگی آدتیہ ناتھ سات بھائی بہن ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ زہر اگلنے والے پروین توگڑیا نو بھائی بہن ہیں۔ شیو سینا کے بال ٹھاکرے نو بھائی بہن۔'
ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ کے مطابق یہ جو باتیں کی جاتی ہیں کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں اور وہ آنے والے وقت میں بھارت پر پھر سے حکومت کریں گے جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈا ہے۔
'2013 میں آر ایس ایس نے ہندوؤں سے کہا کہ وہ کم از کم تین بچے پیدا کریں۔ ساکشی مہاراج، جو بی جے پی کے ایک بہت بڑے رہنما ہیں، کہتے ہیں کہ ہر ہندو کو چار بچے پیدا کرنے ہیں ورنہ ہندو مذہب کو خطرہ ہے۔ ایک اور نیتا کہتے ہیں کہ نہیں پانچ پیدا کرنے ہوں گے۔
'میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس کو کتنے بچے پیدا کرنے ہیں کیا یہ فیصلہ مرد اور نیتا کریں گے؟ کیا خواتین سے ان کی مرضی نہیں پوچھی جائے گی؟ کیا یہ لوگ ہندو عورتوں کو بچے پیدا کرنے والی مشینیں بنانا چاہتے ہیں؟'
'مسلمانوں کی آبادی میں غیر معمولی اضافے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھارت کی آبادی 80 سال بعد مسحتکم یا سٹیبلائز ہوگی۔ جب آبادی مستحکم ہوگی تو ہندوؤں کی تعداد 1.27 بلین ہوگی جبکہ مسلمانوں کی تعداد 320 ملین۔ مسلمانوں کی آبادی میں طوفانی اضافے کی باتیں جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈا ہے۔'
ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ کے بقول بھارتی مسلمانوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی شرح زیادہ، کثرت ازواج کا رجحان سب سے کم اور فرٹیلٹی کی شرح ہندوؤں سے کم ہے۔
'بھارت میں 2015 تا 2016 میں کیے جانے والے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں میں نس بندی کی شرح 44 فیصد جبکہ ہندوؤں میں 32 فیصد ہے۔
’1991 تا 1992 میں کیے جانے والے سروے میں ہندوؤں میں نس بندی کی شرح 29 فیصد جبکہ مسلمانوں میں 14.4 فیصد تھی، یعنی مسلمانوں میں نس بندی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
'اکثر کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی کئی بیویاں ہوتی ہیں۔ 1974 میں وفاقی وزارت برائے سماجی بہبود نے ایک سروے کیا۔ اس سروے میں ہندؤں میں کثرت ازواج کی شرح 5.8، مسلمانوں میں 5.7، بدھسٹوں میں 7.92، جینوں میں 6.72 اور قبائلوں میں 15.25 ریکارڈ کی گئی تھی یعنی مسلمانوں میں کثرت ازواج کی شرح سب سے کم پائی گئی۔
'فرٹیلٹی کی شرح میں گراوٹ کا رجحان بھی مسلمانوں میں ہی دیکھا جا رہا ہے۔ 2006 سے 2015 تک مسلمانوں میں فرٹیلٹی کی شرح میں 0.79 فیصد گراوٹ جبکہ اس کے مقابلے میں ہندوؤں میں فرٹیلٹی کی شرح میں محض 0.46 فیصدی کمی ریکارڈ کی گئی۔
'1992 میں مسلمانوں میں فرٹیلٹی کی شرح 4.4 تھی جو 2015 میں کم ہو کر 2.6 پر آ گئی ہے۔ مقصد یہ بتانا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں میں فرٹیلٹی کی شرح بڑی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔'
ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ کے مطابق بھارت کی 'معصوم عوام' اعداد و شمار پر نظر ڈالنے کی بجائے 'بعض لوگوں' کے جھوٹ اور فریب کے بہکاوے میں آ جاتی ہے۔
'آبادی میں اضافے کی وجہ مذہب نہیں بلکہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ اگر کوئی مسلمان بڑا افسر ہے تو اس کے دو ہی بچے ہوں گے۔ کوئی ان پڑھ ہندو رکشہ والا ہے تو اس کے بھی آٹھ بچے ہوں گے۔
'آپ تعلیم نہیں دیں گے تو آبادی کم ہونے کی بجائے بڑھ جائے گی۔ مسلمانوں کو تعلیم دے دیں گے تو ان کی آبادی اپنے آپ کم ہو جائے گی۔
'جاپان اور یورپ میں زیادہ بچے پیدا کرنے پر مراعات دی جاتی ہیں۔ جو چین نے آج سے 40 پچاس سال پہلے کیا ہم آج کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہمیں ہمیشہ چین کے پیچھے رہنا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پاپولیشن کنٹرول لا آبادی کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہے۔'
مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ، سچائی کیا ہے؟
شہاب الدین یعقوب قریشی معروف بہ ایس وائی قریشی بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر اور کئی کتابوں بالخصوص 'دا پاپولیشن متھ: اسلام، فیملی پلاننگ اینڈ پولٹیکس ان انڈیا' کے مصنف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں آبادی کے معاملے میں مسلمان کبھی بھی ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ نہیں سکتے۔
'پروفیسر دنیش سنگھ ایک بہترین ریاضی دان ہیں۔ میں نے ان کو بھارت کی آبادی کا 70 سالہ ڈیٹا بھیجا اور ان سے گزارش کی کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ مسلمان آبادی کے معاملے میں کب ہندوؤں کو پیچھے چھوڑیں گے جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے۔
'پروفیسر دنیش نے مجھے ایک ریاضیاتی ماڈل بنا کر بھیجا جس کے مطابق مسلمان اگلے 600 سال میں نہیں، ایک ہزار سال میں نہیں بلکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہندوؤں کو کبھی پیچھے چھوڑیں گے۔
'اس کے برعکس بھارت میں آبادی میں اضافے کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا تھا کہ اگر ایک ہندو خاندان میں دو بچے ہیں تو مسلمان خاندان میں آپ کو 10 بچے دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ پروپیگنڈا بہت وقت سے چلا آ رہا ہے۔'
ایس وائی قریشی کے مطابق قانون بنانے سے آبادی پر قابو نہیں پایا جا سکتا ہے اور چین میں ایسی قانون سازی ناکام ثابت ہو چکی ہے۔
'یہ کام ڈنڈا چلانے سے نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو پیار سے سمجھانے کی ضرورت ہے۔ چین کو بھی اپنے 'ون چائلڈ نارم' پر پچھتاوا ہوا اور بعد ازاں ہٹانا پڑا۔
'ایسے قوانین سماجی تانے بانے کے خلاف ہیں۔ 'ون چائلڈ نارم' میں بہن اور بھائی کی سمجھ ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کسی باپ کا بیٹا ہے تو اس کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ بہن کیا ہوتی ہے۔
'بھارت میں 1975 سے 1977 تک ایمرجنسی کے دوران زبردستی نس بندی کرائی گئی۔ اس زبردستی کا یہ اثر ہوا کہ ایک سرکار گر گئی۔
'اس طرح کے قانون سے زیادہ نقصان خواتین کا ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے ہاں دو لڑکیاں پیدا ہوئیں اور وہ ایک لڑکا چاہتا ہے تو وہ ایک بچی کو مارنے کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔ دختر کشی کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔'