انگلینڈ نے پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کے آخری میچ میں بھی پاکستان کو شکست دے کر سیریز چار صفر سے جیت لی ہے۔
اس طرح پاکستان کو لگاتار دس ایک روزہ میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور ایک روزہ میچوں کی سیریز میں یہ پاکستان کو لگاتار دوسرا وائٹ وائش بھی ہے۔
اب تک جو بلے باز مسلسل تین سے زائد سکور کرنے میں کامیاب رہے تھے آج لیڈز میں کھیلے جانے والے اس میچ میں 297 رنز ہی بنا سکے۔ پاکستان کو اس میچ میں 54 رنز سے شکست ہوئی۔
یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان انگلینڈ کے خلاف انگلینڈ میں ہی کسی سیریز کا ایک میچ بھی نہیں جیت پایا۔
کپتان سرفراز احمد کا بلا بھی آخرکار چل ہی بڑا لیکن ایک بار پھر وہ ایسے وقت اپنی وکٹ گنوا بیٹھے جب انھیں اور ٹیم کو ان کی ضرورت تھی۔ سرفراز احمد نے 97 رنز کی اننگز کھیلی۔
352 رنز کے تعاقب میں پاکستان نے اننگز کا آغاز اس انداز میں کیا جیسے وہ ایک انتہائی خطرناک بولنگ پچ پر بیٹنگ کرنے آئے ہیں، اور ابتدائی تین اووروں میں ہی اس کی تین وکٹیں گر گئی تھیں۔
بھلا ہو بابر اعظم اور سرفراز احمد کا جنھوں نے اس خوبصورتی سے ابتدائی نقصان کے بعد اننگز کو آگے بڑھانا شروع کیا کہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ سیریز کا ایک میچ تو پاکستان جیت ہی جائے گا۔
دونوں بلے بازوں نے نصف سنچریاں سکور کیں اور چوتھی وکٹ کی شراکت میں 146 رنز بنائے، لیکن نہ جانے کیسے بابر اعظم یک دم رن آؤٹ ہو کر پویلیئن لوٹ گئے۔ ان کے رن آؤٹ پر انگلش فیلڈرز کی مسکراہٹیں سب حال بتا رہی تھیں۔
بابر اعظم کو عادل رشید نے جاز بٹلر کی جانب سے وکٹوں سے دور پھینکی تھرو کو پکڑ کر بنا پیچھے دیکھے گیند پھینک کر رن آؤٹ کیا۔ اس کے فوراً بعد ہی عادل رشید نے ایک بار پھر اپنی ہی گیند پر شعیب ملک کا عمدہ کیچ پکڑا جس سے جیت کی امیدیں ماند پڑ گئیں لیکن جس انداز میں جاز بٹلر نے حاضر دماغی سے سرفراز احمد کو رن آؤٹ کیا اس سے تو خود سرفراز بھی ’لاجواب‘ ہو گئے۔
یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ انگلینڈ نے ابتدائی وکٹیں لینے کے باوجود یہ میچ اپنی فیلڈنگ سے جیتا۔
جس وکٹ پر وکٹیں لینا اور رنز بچانا مشکل ہو رہا تھا اسی پر کرس ووکس نے اپنے دس اوورں میں 54 رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ انھیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
انگلینڈ کی اننگز
اس سے قبل انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر 350 کا ہندسہ عبور کیا اور پاکستان کو 352 رنز کا ہدف دیا۔
پانچ میچوں کی سیریز میں یہ پہلا موقع تھا کے انگلش اوپنرز ویسا آغاز فراہم نہ کر سکے جیسا وہ گذشتہ میچوں میں کرتے آئے تھے لیکن پھر بھی اس کی پہلی وکٹ 63 رنز پر گری۔ یہ سیریز میں پاکستان کے لیے بھی پہلا موقع تھا کہ اس نے ابتدائی دس اووروں میں ہی کوئی وکٹ حاصل کی ہو۔
پاکستانی بولر قدرے پہتر دکھائی دیے اور ایک موقع پر وہ انگلش ٹیم کو تین سو کے آس پاس ہی روکنے میں کامیاب بھی ہونے ہی والے تھے لیکن پھر اچانک ہی ان کی لائن و لینتھ دوبارہ سے خراب ہوگئی جس کا انگلینڈ کے ’ٹیل اینڈرز‘ نے خوب فائدہ اٹھایا اور اس میدان پر ایک روزہ میچوں کا سب سے بڑا سکور بنا ڈالا۔
انگلینڈ کے لیے ورلڈ کپ کو دیکھتے ہوئے اس میچ میں مثبت بات یہ رہی کہ اگر اس کے اوپر کے نمبروں پر آنے والے بلے باز جلد آؤٹ ہو بھی جاتے ہیں تو نیچے کے نمبر پر آنے والے کھلاڑی بھی بھرپور مزاحمت دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ 272 پر چھ وکٹیں گرنے کے باوجود انگلینڈ نے ساڑھے تین سو رنز آسانی سے بنا لیے۔
پاکستان کی طرف شاہین شاہ آفریدی سب سے مہنگے بولر تو رہے ہی لیکن اچھی بات یہ تھی کہ انھوں نے چار وکٹیں بھی حاصل کیں جن میں سے ایک وکٹ یارکر پر لی گئی۔ ان کے علاوہ عماد وسیم نے بھی تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
فیلڈنگ کے دوران سرفراز الیون کی اس میچ میں سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ انھوں نے کسی بھی انگلش بلے باز کو سینچری سکور کرنے نہیں دی۔ جو روٹ 84 اور کپتان اوئن مورگن 76 رنز کے ساتھ نمایاں بلے باز رہے اور ان کے علاوہ کسی دوسرے بیٹسمین نے نصف سنچری تک سکور نہ کی۔