خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے عوامی ٹرانسپورٹ سسٹم ’پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ‘ (بی آر ٹی) میں خواجہ سراؤں کے لیے جگہ مختص کردی گئی ہے۔
صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے جب کسی عوامی ٹرانسپورٹ میں اس برادری کے لیے نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
بی آر ٹی کا انتظام سنبھالنے والے ادارے ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر نے بتایا کہ خواجہ سرا اس معاشرے کا حصہ ہیں لہٰذا جہاں بی آر ٹی سے دوسرے لوگ مستفید ہوئے ہیں وہیں ان کے لیے بھی نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
’اب بی آر ٹی کی ہر بس میں خواجہ سراؤں کے لیے ترجیحی نشستیں ہوں گی لہٰذا شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ ان مخصوص نشستوں پر بیٹھنے سے اجتناب کریں۔‘
اس خبر کو جب صوبائی حکومت کے ترجمان اور مشیر اطلاعات کامران بنگش نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا تو بعض صارفین نے اعتراض کرتے ہوئے لکھا کہ خواجہ سراؤں کے لیے الگ نشست مخصوص کرنا ’غیر مساوی سلوک‘ یا امتیازی سلوک کے احساس کو فروغ دے گا۔
جس پر کئی سوشل میڈیا صارفین نے جواب دیا کہ اگر خواتین اور مردوں کے لیے بس میں الگ سیکشن ہو سکتے ہیں تو خواجہ سراؤں کے لیے کیوں نہیں؟ صارفین کے مطابق خواجہ سراؤں کو بھی سفر کے دوران ہراسانی کا سامنا رہتا ہے۔
بی آر ٹی میں سفر کرنے والے ایک خواجہ سرا تتلی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عوامی ٹرانسپورٹ میں انہیں جنسی ہراسانی کا سامنا رہتا ہے اور انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں ہمیشہ کوفت سے گزرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے ماضی کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ‘ایک مرتبہ اسی بس میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ہم نہ مردوں کے ساتھ کھڑے ہوسکتے تھے اور نہ خواتین کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہاں تک کہ جب درمیان میں ایک سیٹ پر بیٹھ گئی تو یہ کہہ کر اٹھا دیا گیا کہ بس میں ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘
ایک اور خواجہ سرا ببلی نے دوران سفر اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہمیشہ سفری مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
ببلی کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی ویگن میں مسافروں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو وہ تنگ کرتے ہیں اور اگر ڈرائیور آگے بٹھاتے ہیں تو وہ بھی جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں۔‘
’آج آرام دہ سیٹ پر ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر سفر کا مزہ لیا اور بہت خوشی ہوئی۔‘