’جب میں بھیک مانگتی تھی تو مجھے پولیس والوں سے بہت زیادہ ڈر لگتا تھا۔ وہ خواجہ سراؤں سے بدسلوکی کرتے تھے اور تلخ لہجے میں بات کرتے تھے۔ پھر میرے ایک ٹیچر مدثر اقبال چوہدری صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ نیشا تم وکیل بن جاؤ۔ پھر تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ پولیس والے تم سے ڈریں گے۔ اس طرح میں نے وکالت کا سفر شروع کیا۔‘
کراچی میں مقیم 28 سالہ نیشا راؤ کو پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
انہوں نے 2018 میں سندھ مسلم لا کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کی اور اب وہ خواجہ سراؤں سمیت دیگر افراد کے کیسز لڑتی ہیں۔ نیشا اب تک 50 سے زائد کیسز نمٹا چکی ہیں اور یہاں تک پہنچنے کے لیے انہوں نے زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔
نیشا کا تعلق لاہور سے ہے لیکن میٹرک کی تعلیم کے بعد گھر والوں کے رویے اور مار پٹائی سے بچنے کے لیے وہ بھاگ کر کراچی آ گئیں جہاں انہوں نے دس سال بھیک مانگ کر گزر بسر کیا اور انہی پیسوں سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔
نیشا اپنی والدہ کے بارے میں بات کرتی ہیں تو ان کی آنکھیں نم پڑ جاتی ہیں۔ آج ان کے گھر والے ان کی ڈھال بن گئے ہیں لیکن گھر کے حالات ہمیشہ اچھے نہیں تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مجھ میں ہمیشہ سے زنانہ عادتیں تھی۔ میں مدرسے میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر قرآن پڑھتی تھی۔ سر پر دوپٹہ پہنتی تھی اور لِپ سٹک لگاتی تھی۔ ان حرکتوں کی وجہ سے مجھے گھر والوں سے اکثر مار پڑتی تھی۔ سکول میں بچے مجھے ریما شرمیلی کہہ کر چڑاتے تھے اور میں بہت روتی تھی۔‘
’جب میں نویں جماعت میں آئی تو مجھے احساس ہوا کہ میں نہ مرد ہوں نہ عورت، مجھے اللہ نے کچھ مختلف بنایا ہے۔ شروع میں مجھے بہت ڈپریشن ہوتا تھا۔ میں سوچتی تھی کہ نیشا یہ تم کیا بن گئی ہو؟ لیکن پھر میں نے معاشرے سے اور خود سے سمجھوتا کیا اور سوچا کہ نیشا تمہیں اللہ نے ہاتھ پاؤں دیے ہیں، آنکھیں دی ہیں اور ایک اچھا ذہن دیا ہے۔ تم پڑھ سکتی ہو اور زندگی میں کچھ بن سکتی ہو۔ مگر اس وقت گھر والوں کا میرے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں تھا۔ اگر وہ مجھے سمجھ جاتے تو میں گھر سے در بدر نہ ہوتی۔‘
نیشا نے بتایا کہ انہوں نے میٹرک کی تعلیم حاصل کرکے اپنی دیگر دو خواجہ سرا سہیلیوں کے ساتھ گھر سے بھاگنے کا پلان بنایا۔ اپنے والد کی تنخواہ کے پیسے چرائے اور ٹرین کا ٹکٹ لے کر کراچی آگئیں۔ شروع کا ایک ڈیڑھ مہینہ نیشا اپنی سہیلی کی گُرو کے گھر رکیں جہاں ان کے کھانا پینے اور رہنے کا بندوبست ہوا۔
’لیکن وہ گُرو بھی غریب تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم لوگوں کو کچھ کام کرنا پڑے گا۔ مجھے ناچ گانا تو آتا نہیں تھا اور نہ میں کوئی اور کام کرنا چاہتی تھی تو انہوں نے مجھے بھیک مانگنے پر لگا دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’شروع میں مجھے بہت دکھ ہوتا تھا کہ میں بھیک مانگ رہی ہوں لیکن نہ میرا شناختی کارڈ تھا، نہ مجھے کوئی نوکری پر رکھتا تھا۔ کسی این جی او نے میری مدد نہیں کی لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ کبھی کسی سگنل، کبھی کسی سگنل بھیک مانگتی رہی۔ پھر میں نے انٹر کے امتحان دیے اور اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں گریجویشن کی۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنی خواجہ سرا شناخت کے ساتھ ہی اپنی تعلیم مکمل کی۔‘
نیشا نے بتایا کہ جب ان کا لا کالج میں داخلہ ہوا تو انہوں نے ایک ٹائم ٹیبل بنا لیا۔ آٹھ سے 12 بجے تک وہ بھیک مانگتی تھیں اور دو بجے سے شام پانچ بجے تک لا کالج جاتی تھیں۔
انہوں نے کہا: ’شروع میں مشکل ہوتی تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھوں یا لڑکوں کے ساتھ، لیکن ایک سال بعد سب ٹھیک ہو گیا اور کالج میں میرے دوست بھی بن گئے۔‘
نیشا کہتی ہیں کہ عدالت میں ان کے ساتھ وکیل اچھی طرح پیش آتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور اگر انہیں کوئی مشکل ہوتی ہے تو وہ انہیں سمجھاتے ہیں۔ سٹی کورٹ کراچی کے ججز بھی نرمی سے بات کرتے ہیں۔
نیشا نے مزید بتایا کہ وہ اپنی این جی او ٹرانس پرائید سوسائٹی کے ذریعے خواجہ سرا افراد کی قانونی طور پر مدد کرتی ہیں۔ مستقبل میں وہ چاہتی ہیں کہ ان کے ادارے کے ذریعے ایک ایسی ہیلپ لائن بنائی جائے جہاں خواجہ سرا وکیل ہی دوسرے خواجہ سراؤں کی رہنمائی کریں۔
وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ بوڑھے خواجہ سرا جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کے لیے شیلٹر ہوم بنائیں تاکہ ان کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کی اچھی دیکھ بھال بھی ہو اور ان کی زندگی کے آخری دن آرام سے گزریں۔