کرونا وائرس کی وبا کے دوران ہونے والے اولمپک مقابلوں کا نتیجہ پیر کو بھاری اخراجات اور کرونا وائرس کے کیسوں میں اضافے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ بعض اوقات مقابلوں کا انعقاد ناممکن دکھائی دیا اور آخر تک ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جاتا رہا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اولمپکس کے منتظمین کے اپنی بات پر جمے رہنے کے بارے میں پہلے سے ہی علم تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ ان کھیلوں نے امید اور حوصلہ بلند کرنے کے لمحات فراہم کیے ہیں اور کرونا وائرس کے بڑے کیس سامنے آئے بغیر جاری رہے۔
کھیلوں کے اختتام پر ہونے والے پریس کانفرنس میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے سربراہ تھامس باخ کے بقول: ’یہ اولمپک کھیل اس امر کا ٹھوس اظہار ہیں کہ کھیل متحد کرنے والی طاقت ہوتے ہیں۔‘
لیکن جاپان کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان انتہائی متنازع مقابلوں کی قیمت چکانی پڑے گی کیونکہ ٹوکیو اور دوسرے مقامات پر کرونا وائرس کے کیسز میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔
جاپان کے اخبار آساہی شمبن جس نے گیمز کا سپانسر ہونے کے باوجود انہیں منسوخ کرنے پر زور دیا تھا، نے کہا ہےکہ تقریباً 15 ارب ڈالر کے اخراجات کے ساتھ ہونے والے مقابلے منقعد کروا کے لوگوں کی جانوں کے ساتھ ’جوا‘ کھیلا گیا۔ پیر کواخبار کے مطابق: ’جوا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں صورت حال مزید خراب ہوگئی۔‘
اس اخبار نے اولمپکس کے آخری دو دنوں میں لوگوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے سروے کروایا جس کے مطابق 56 فیصد لوگوں نے کھیلوں کے حق میں جبکہ 32 فیصد نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ صرف 32 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ کھیلوں کو محفوظ خیا ل کرتے ہیں۔ 54 فیصد لوگ اس کے قائل نہیں تھے۔
ٹوکیو 2020 اولمپکس کا موازنہ کسی دوسرے ایونٹ کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مقابلے گذشتہ سال ملتوی کر دیے گئے تھے جو ایک تاریخی اہمیت کا حامل فیصلہ تھا۔ مقابلے ملتوی ہونے سے ایتھلیٹس کی برسوں کی منصوبہ بندی ضائع ہوگئی تھی۔ کھیلوں کے دوران سب کے لیے ماسک لگانا ضروری تھا جبکہ پہلی بار مداحوں کو تقریباً تمام ایونٹس والے مقامات میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔
اولمپکس کو جی بھر کے سراہا گیا
بہرحال جب مقابلوں کا آغاز ہوا تو ایسی علامات موجود تھیں کہ جاپانی عوام کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔
کھیلوں کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر آتش بازی دیکھنے کے لیے ہزاروں افراد نے اولمپک سٹیڈیم کا رخ کیا۔ شہریوں کو اولمپک رنگز کےسامنے تصویریں بنانے کا موقع مل گیا۔
مقابلے شروع ہونے کے بعد لوگوں نے شاہراہوں پر ہونے والے مقابلوں سے دور رہنے کی درخواستیں مسترد کر دیں جبکہ اولمپکس کے موقعے پر جاپان بھر میں خریداری کرنے والوں کا دکانوں میں رش اچانک بڑھ گیا۔
ہیروچیکاٹڈیڈا، نے اے ایف پی کو بتایا: ’ایتھلیٹس کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اپ نعرے لگا کر مدد کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔‘ وہ اپنے گھر کے سامنے اس سڑک پر موجود تھے جہاں ٹرائی تھلون کا اہتمام کیا گیا تھا۔
پیر کے روز جاپانی اخبارات میں ایتھلیٹس کی تعریف خاص بات رہی۔ یومیوری شمبن نامی اخبار نے مقابلوں میں جان مارنے والے ایتھلیٹس کو کھل کر سراہا۔ تاہم اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کہ کرونا وائرس کی وبا اور اولمپکس کی تنسیخ سے کھیلوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
لیکن بعض بڑے مقابلوں کے معاملے میں مایوسی کے باوجود کھیلوں میں حصہ لینے والوں کی کارکردگی متاثرکن رہی۔ عالمی ریکارڈ توڑے گئے اور متعدد نئے کھیلوں کو اولمپکس کا حصہ بنایا گیا جن میں سکیٹ بورڈنگ اور سرفنگ شامل ہیں۔
کرونا وائرس کا سایہ آغاز سے ہی کھیلوں پر منڈلاتا رہا اور پی سی آر ٹیسٹ کا نتیجہ سامنے آنے پر کئی ایتھلیٹس کے خواب بکھر گئے۔ تاہم بہت سے لوگ ایونٹ کے انعقاد پر خوش تھے۔
آسٹریلوی فٹبالر الانا کینیڈی نے ٹوئٹر پوسٹ میں لکھا کہ ’انہوں نے وبا کے دوران شاندار اولمپکس مقابلے کروائے۔ ہمیشہ مسکراہٹ اور بڑی شفقت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔‘
اولمپکس نے دنیا کو روشن کر دیا
برطانوی اولمپکس ایسوسی کے چیئرمین ہیورابرٹسن کے مطابق: ’گیمز ایسے مشکل حالات میں کروائی گئیں جن کا ادراک کیا جا سکتا ہے اور منتظمین کی کارکردگی شاندار رہی۔‘
واضح رہے کہ اولمپک مقابلے جاپان میں کھیلوں کی بھی فتح تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جاپان نے بیس بال سے لے کر سکیٹ بورڈنگ تک ہر مقابلے میں سونے کے 27 تمغے حاصل کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔
جاپان کے اولمپک حکام کا کہنا ہے کہ طلائی تمغے لینے سے عوام کی کھیلوں میں دلچسپی میں بڑا اضافہ ہوا۔ ان کا اشارہ ان خاندانوں کی طرف تھا جو بچوں کو ایونٹ دیکھنے کے لیے ساتھ لائے تھے تاکہ ایتھلیٹس کو جوش دلانے کے لیے نعرے لگا سکیں جبکہ بچوں نے گھر کی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر بھی جھنڈے لہرائے۔
لیکن دوسری طرف ان نعروں کے پیچھے بحران کا احساس بھی موجود ہے کیونکہ اولمپکس کے دوران وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو اہے۔ دارالحکومت ٹوکیو اور ملک کےدوسرے حصوں میں ہنگامی حالت ہے۔
جاپان میں صرف ایک تہائی آبادی کو ویکسین کی دوسری خوراک لگ چکی ہے جبکہ ڈیلٹا ویرینٹ کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صورت حال وزیراعظم یوشی ہیڈے سوگا کے سیاسی مستقبل پر بھاری پڑے گی کیونکہ قیادت کے لیے دوڑ کا سامنا ہے اور اس کے بعد اکتوبر میں عام انتخابات ہونے ہیں۔
تاہم بعض لوگوں کے لیے اولمپکس کا انعقاد وبا کی تشویش کو بہا لے کیا ہے۔ یونیورسٹی کی 21 سالہ طالبہ ریٹاگوٹو کے بقول: ’یہ درست ہے کہ میں کچھ پریشان تھی لیکن آخر میں اولمپکس نے نہ صرف جاپان بلکہ پوری دنیا کو روشن کر دیا ہے۔‘