امریکہ سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں موبائل فون بنانے والی چین کی سب سے بڑی کمپنی ہواوے کی مصنوعات اور خدمات پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ تاہم پاکستانی منڈی میں بھی اس کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ تو کیا امریکیوں کی طرح پاکستانیوں کو بھی کوئی تشویش ہونی چاہیے؟
کمپنی کے تیار کردہ موبائل فون اور دوسرے آلات میں استعمال کرنے والوں کی معلومات بغیر اجازت کہی بھی پہنچانے کی صلاحیت ہونے کا الزام ہے۔
کمپنی پر موبائل فونز اور دوسرے ٹیکنالوجی آلات کے ذریعے صارفین کی معلومات ’چرانے‘ کا الزام ہے۔ تاہم ہواوے (کمپنی کے مطابق اس کے نام کا تلفظ واہ وے ہے) کی انتظامیہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
امریکہ اور چند دیگر ممالک نے ہواوے کی مصنوعات پر پابندیاں ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر لگائیں جبکہ کئی ملک اس کے تیار کردہ آلات اور سسٹمز کی تکنیکی جانچ کر رہے ہیں۔
اس کے باوجود ہواوے اب بھی دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن آلات اور سافٹ ویئر بنانے اور خدمات فراہم کرنے والی بڑی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ 1987 میں قائم ہونے والی ہو آوے بہت کم عرصے میں اپنی حریف کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہواوے نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ 2017 میں ہواوے پاکستان میں موبائل فون فروخت کرنے والی پانچ بڑی کمپنیوں میں شامل نہیں تھی لیکن 2018 میں یہ موبائل فونز کی فروخت میں سام سنگ اور ایپل کے بعد پاکستان کی تیسری بڑی کمپنی بن گئی۔
ہواوے کے ایک سینئیر عہدے دار مثاب خالد کے مطابق: ’ہم اس وقت پاکستان میں سام سنگ کے بعد سب سے زیادہ موبائل فون فروخت کررہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موبائل فونز کی فروخت کے علاوہ انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلق خدمات میں بھی ہواوے کی پاکستان میں اجارہ داری ہے۔
دنیا بھر میں بھی ہواوے کے موبائل فونز کی فروخت دوسرے نمبر پر ہے جب کہ اربوں لوگ اور ادارے اس کمپنی کے تیارکردہ راؤٹرزاور دوسرے آلات استعمال کرتے ہیں۔
ہواوے پر دنیا میں سب سے پہلا اعتراض جرمنی کے ماہر فیلیکس لنڈر نے 2012 میں کیا، جب ملائیشیا میں منعقدہ ایک کانفرنس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ہواوے کے تیار کردہ راؤٹرزاور دوسرے آلات کو ہیک کرنا بہت آسان ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ چینی کمپنی کے انٹرنیٹ سے متعلق آلات کی سکیورٹی میں بہت خامیاں ہیں۔
پاکستان کی ایک بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے سینئیر عہدے دار یاسر درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہواوے کے سسٹمز اَپ گریڈ، پیچ اپس کے ذریعے چلتے ہیں، جو انہیں ناقابل اعتماد بناتے ہیں۔
یاسر درانی کے مطابق: ’ایسے سسٹمز میں کچھ بھی آ سکتا ہے اور معلومات باہر بھی جا سکتی ہیں۔‘
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں ہواوے کے فون استعمال کرنے والے صارفین کی معلومات لیک ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب کمیونیکیشن سے متعلق حکمت عملیاں بنانے والے ادارے بائٹس فار آل کے کنٹری ہیڈ شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کا ماننا ہے کہ ہواوے کا سسٹم سکیورٹی پروف نہیں اور اس میں سے معلومات مبینہ طور پر لیک ہو کر چین پہنچتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موبائل فونز کے علاوہ دوسرے کئی آلات استعمال ہو رہے ہیں جو ہواوے کے تیار کردہ ہیں اور یہ آلات ڈیٹا کو چین بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تاہم یاسر درانی کا کہنا تھا: ’قومی سلامتی سے متعلق اداروں اور سسٹمز میں سکیورٹی بہت مضبوط ہوتی ہے اور ہواوے کے آلات وہاں سے معلومات نہیں چرا سکتے۔‘
دوسری جانب مثاب خالد نے اس اعتراض پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا: ’یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کی اتنی بڑی کمپنی کا سسٹم ایسا کمزور ہو اور اس میں سے معلومات اتنی آسانی سے لیک ہوسکے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب ان کی کمپنی کے خلاف پروپیگنڈہ ہے اور اس میں بالکل بھی صداقت نہیں۔
ہواوے دنیا میں فائیو جی (ففتھ جنریشن) ٹیکنالوجی کے اجرا میں بھی دوسری کمپنیوں سے آگے ہے۔ اس سلسلے میں کمپنی نے کافی ریسرچ کی ہے اور سب سے پہلے کئی ایک سافٹ ویئر بنانے کا دعویٰ کرتی ہے۔
مثاب خالد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی کمپنی نے حال ہی میں سعودی عرب میں فائیو جی کا اجرا کیا اور دوسرے کئی ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بھی معاہدے ہو رہے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں بھی فائیو جی ہواوے ہی شروع کرے گی، تاہم اس میں کچھ وقت لگے گا۔
اگرچہ بعض یورپی، شمالی امریکی ملکوں اور آسٹریلیا نے فائیو جی ٹیکنالوجی کی تنصیب اور اجرا میں ہواوے کی خدمات نہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم چینی کمپنی یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں اس نئی ٹیکنالوجی کے کم از کم 40 معاہدے کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔
شنگھائی، چین میں ایک نمائش کے دوران ایک گاہک ہواوے کے تیار کردہ سکیورٹی کیمروں کی جانچ پڑتال کر رہا ہے۔ (روئٹرز)
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سیف سٹی پراجیکٹ کے تحت نصب تقریباً دو ہزار سی سی ٹی وی کیمرے بھی ہواوے کے تیار کردہ ہیں۔
شہزاد احمد کے مطابق 2016 میں شروع ہونے والے سیف سٹی پراجیکٹ پر لاگت کا تخمینہ 30 ارب روپے ہے اور اس میں ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ سے متعلق تمام آلات ہواوے کے ہیں۔
ان کے مطابق: ’سیف سٹی پراجیکٹ سے متعلق حکام سے معلومات مانگی گئیں تو خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا، حتیٰ کہ محکمہِ وفاقی محتسب کے ذریعے بھی کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘
اس حوالے سے اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ کے ایس پی آپریشنز حسام بن اقبال کہتے ہیں کہ ہواوے کے صرف کیمرے لگائے گئے ہیں اور اس سلسلے میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ چینی کمپنی پر پابندیوں کی اطلاعات کے بعد نادرا کو اس سلسلے میں ضروری جانچ پڑتال کا کہا گیا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں انٹرنیٹ، کیبل ٹی وی اور ٹیلیفون کی خدمات مہیا کرنے والی سب سے بڑی نجی کمپنی نیا ٹیل بھی ہواوے کے آلات اور خدمات استعمال کرتی ہے۔
اس حوالے سے مثاب خالد نے بتایا کہ نیا ٹیل ان کے ٹاورز، راؤٹرز، موڈیولز اور دوسرے آلات استعمال کرتی ہے اور وہاں سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہواوے اینڈروئیڈ کا متبادل سافٹ ویئر بھی بنا چکی ہے، جو مستقبل قریب میں پاکستان میں بھی متعارف کرایا جائے گا اور ہواوے کے نئے موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کو گوگل اور اس سے متعلقہ ایپس کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔
بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسین ہوآوے پر لگائی جانے والی پابندیوں کے پیچھے معاشی یا تکنیکی سے زیادہ سیاسی عوامل کارفرما دیکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’امریکہ دراصل چین کی بہت تیزی سے پھلتی پھولتی معیشت سے خوفزدہ ہے اور اسی کو روکنے کے لیے بند باندھنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
ڈاکٹر رفعت نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ مسئلہ تکنیکی بالکل بھی نہیں، یہ خالصتاً سیاسی ہے کیونکہ امریکہ کی معیشت چین کے مقابلے میں سکڑ رہی ہے اور واشنگٹن میں یہی پریشانی ہے۔
بعض مبصرین ہواوے کے مالک رین جین فیائی کے ماضی میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے تعلق کو ان کی کمپنی کی مشکلات کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
رین جین فیائی 1980کے اوائل تک چین پر1949سے بر سرِاقتدار کمیونسٹ پارٹی کی پیپلز لبریشن آرمی میں انجینیئر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
تاہم ہواوے کی انتظامیہ اس الزام کو رد کرتے ہوئے کمپنی کو دنیا کے 170ملکوں میں موجود اس کے ایک لاکھ اسی ہزار ملازمین کی ملکیت قرار دیتی ہے۔