سندھ بار کونسل، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے جونئیر جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے فیصلے کے خلاف منگل کو کراچی کی تمام عدالتوں میں ہڑتال کی گئی۔
ہڑتال کے دوران وکلا نے نہ صرف عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا بلکہ عدالتوں کے داخلی دروازے بند کرکے سائلین کو اندر جانے سے بھی روک دیا۔
وکلا کی ہڑتال کے باعث اہم مقدمات کی سماعت نہیں ہوسکی۔ وکلا نے اپنے مطالبات کے حق میں بینر اٹھا کر نعرے بازی بھی کی۔ اس موقع پر بار کونسل کے وائس چیئرمین ضیا الحسن لنجار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج اس ملک میں ایسی صورتحال ہوگئی ہے کہ چیف جسٹس خود انصاف مانگ رہا ہے اور سنیارٹی کے باجود چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ میں مقرر نہ کرکے آئینی بحران پیدا کیا جارہا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں سنیارٹی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر موجود جج کی چار سینیئر ترین ججز کو نظر انداز کر کے سپریم کورٹ میں تعیناتی کے معاملے پر ملک بھر میں کئی ہفتوں سے احتجاج جاری ہے۔ وکلا عدالتوں کا ملک گیر بائیکاٹ بھی کرچکے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر صلاح الدین پنہور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: 'سپریم کورٹ میں تقرری کا بنیادی اصول سنیارٹی ہوتا ہے۔ مگر اب چار ججز کو بائی پاس کرکے جونیئر جج کو تعینات کیا جارہا ہے، جس کے خلاف ہم احتجاج کررہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ میں سینیارٹی کو نظرانداز کرکے جسٹس محمد علی مظہر کو تعینات کیا گیا جو مناسب نہ تھا۔‘
'ہمارا احتجاج کسی جج کو ایڈہاک پر رکھنے کے خلاف نہیں بلکہ سنیارٹی کو نظرانداز کرنے پر ہے۔ اگر اس طرح اپنے من پسند ججز کو مقرر کیا جائے گا تو پھر سنیارٹی کا کیا ہوگا؟'
1997 کے ایک پارلیامانی ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17 مقرر کردی گئی تھی۔ فی الحال سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 16 ہے۔ جن میں سے آٹھ ججز کا تعلق پنجاب، پانچ کا سندھ، دو کا خیبر پختوخوا اور ایک جج کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 182 کے تحت مقدمات بڑھ جانے کی صورت میں کورم پورا کرنے کے سپریم کورٹ میں 17 مستقل ججز کے علاوہ صدر مملکت کی اجازت سے عارضی طور پر ججز بھی تعینات کیے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ 17 اگست کو سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی عمر کی حد پوری ہونے پر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ سندھ ہائی کورٹ کی سنیارٹی کی فہرست میں پانچویں نمبر کے جج محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ کا مستقل جج مقرر کرنے والے فیصلے کے خلاف پاکستان بار کونسل نے احتجاج کیا ہے۔ محمد علی مظہر کی سنیارٹی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ، جو ملک بھر کے ہائی کورٹس میں سینئر ترین ہیں، کے علاوہ جسٹس عرفان سادات خان، جسٹس عقیل احمد عباسی اور سید حسین اظہر رضوی کے بعد پانچویں نمبر پر ہے، مگر اس کے باجود انھیں پانچ ججز کی سنیارٹی کو نظرانداز کرکے سپریم کورٹ میں تعینات کیا جارہا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے نائب صدر خوش دل خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جونیئر ججز کی تعیناتی کو کسی صورت بھی قبول نہں کیا جائے گا۔ 'ہم ایسی تعیناتی کے خلاف کراچی سے باظابطہ تحریک کا آغاز کر رہے ہیں۔
سنیارٹی کے تحت تعیناتی سے عدالتی نظام مضبوط ہوگا، ہم نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسے فیصلے کرکے عدلیہ کو کمزور کیا جارہا ہے، جو قبول نہیں کیا جاسکتا'۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جونیئر ججز کی تعیناتی کے خلاف وکیلوں کے احتجاج کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ سال 2022 کے پہلے آٹھ مہنیوں میں سپریم کورٹ کے سات ججز ریٹائر ہو رہے ہیں اور وکیلوں کو خدشہ ہے کہ اگر جونیئر ججز کی تعیناتی پر احتجاج نہ کیا گیا تو ریٹائرڈ ہونے والے ججوں کی جگہ جونیئر ججوں کو تعینات کیا جاسکتا ہے۔
2022 میں ریٹائرڈ ہونے والے ججز میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان یکم فروری 2022 کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں، جسٹس قاضی محمد امین 25 مارچ، جسٹس مقبول باقر چار اپریل، جسٹس مظہر عالم مندوخیل 13 جولائی اور جسٹس سجاد علی شاہ 13 اگست 2022 کو ریٹائر ہوجائیں گے۔
دوسری جانب منگل کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں ہونے والےجوڈیشل کمیشن کےاجلاس میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی شیخ کی سپریم کورٹ میں ایڈہاک بنیاد تعیناتی کی سفارش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایڈہاک تعیناتی سے پہلے ہی انکار کرچکے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کو خط میں مستقل تعیناتی پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔