بھارت میں چھ ہفتے تک جاری رہنے والا انتخابی عمل 19 مئی کو ختم ہوا جس کے فوراً بعد میڈیا اور رائے عامہ کا جائزہ لینے والے مختلف اداروں نے ایگزٹ پولز میں نریندر مودی کو اکثریت ملنے کی پیش گوئی کر رکھی ہے۔
ایگزٹ پولز کے مطابق کانگریس کی کارکردگی توقع سے کم رہی ہے جبکہ اترپردیش میں مہا گٹھ بندھن، جو بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بنایا ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ واضح رہے کہ یو پی میں پارلیمان کی 80 نشستیں ہیں اور نئی حکومت بنانے میں اس کا بڑا کردار ہوتا ہے۔
کانگریس اور ترنمول کانگریس سمیت دوسری جماعتوں نے لوگوں کو 23 مئی تک انتظار کرنے کی اپیل کرتے ہوئے انتخابی کمیشن کے کردار پر کئی طرح کے سوالات اٹھائے ہیں۔
مودی کے ممکنہ طور پر دوبارہ اقتدار میں آنے پر بعض خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے جن میں سر فہرست ملک میں ہندو انتہا پسندی کی بڑھتی لہر کو تقویت ملنا شامل ہے۔
مودی حکومت کے گذشتہ پانچ برسوں میں مسلمانوں، نچلے طبقے کے ہندوؤں اور عیسائیوں پر حملے کیے گئے جن میں زیادہ تر مسلمان ہندوؤں کے تشدد کا نشانہ بنے۔ گاؤ کشی کے خلاف چلائی جانے والی کٹر ہندوؤں کی مہم کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔ اترپردیش کے ہزاروں مسلمان اس وقت روزگار سے محروم ہو گئے جب ریاست کے کٹر ہندو وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے سیکڑوں گاؤ خانے بند کرنے کا اعلان کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مودی کے دوبارہ آنے سے 20 کروڑ مسلمان تشویش میں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایجنڈے کے تحت انہیں دوسرے درجے کے شہری بنا کر بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ میں مداخلت کرکے ان سے نہ صرف مذہبی آزادی چھینی جائے گی بلکہ تین طلاق کا قانون بنا کر مسلمان مردوں کو پہلے ہی عتاب کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ مودی اب یونیفارم سول کوڈ لاگو کرکے ہندوستان میں مسلمان اقلیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
مودی کی جماعت بی جے پی میں بیشتر کارکن اونچے طبقے کے ہندو ہیں جنہوں نے بسا اوقات نچلے طبقے سے وابستہ ہندوؤں یعنی دلتوں کو آئین کے تحت ملنے والی مراعات کو ختم کرنے کی کئی بار دھمکی دی اور بعض ریاستوں میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ دلتوں کو مودی کی دوبارہ جیت پر خاصی پریشانی لاحق ہے حالانکہ انہوں نے 2014 کے انتخابات میں مودی کو یہ جان کر ووٹ دیا تھا کہ وہ ان کے لیے بہتر معیشت اور معاشرت کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے جس کا انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ بھی کیا تھا لیکن نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے اقدامات کے بعد بیشتر دلت بے روزگار ہو گئے اور چمڑے کی صنعت میں ابتری کے کارن کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔
مودی کے دور اقتدار میں کئی ادارے اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں اور ان پر عوام کا اعتبار متزلزل ہو گیا ہے جن میں سپریم کورٹ، انتخابی کمیشن، قومی سلامتی ادارہ اور قومی تفتیشی بیورو قابل ذکر ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ عوام کا ایک بڑا طبقہ محسوس کر رہا ہے کہ مودی کے دوبارہ آنے سے ان اداروں کی رہی سہی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ اس وقت انتخابی کمیشن پر مودی کے حق میں کام کرنے کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق مودی حکوت کی کشمیر پالیسی کی وجہ سے ریاست میں زمینی صورتحال انتہائی تشویشناک ہوئی ہے۔ سیکورٹی فورسز کو عسکری پسندوں کو ہلاک کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ حریت کے رہنماؤں کے خلاف کالا دھن سفید کرنے سے لے کر ملک دشمن سرگرمیاں چلانے کے درجنوں مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
بعض رہنماؤں کو گرفتار، تو بعض کو گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ میڈیا پر سخت پابندیاں اور نوجوانوں کو ہراساں کرنے کا عمل جاری رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ مودی کے واپس آنے سے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے ساقط کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کر دیا جائے گا تاکہ جموں و کشمیر میں غیر مسلموں کو بسا کر اس کے اکثریتی کردار کو ختم کیا جا سکے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے ملک کے چند امیروں کے لیے کئی ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ سے متوسط یا غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں عوام معاشی طور پر مزید کمزور ہو گئے ہیں۔
ایک سرکاری رپورٹ میں حال ہی میں انکشاف کیا گیا کہ سن 70 کے بعد پہلی بار ملک میں بے روزگاروں کی تعداد بے تحاشا بڑھ گئی ہے۔ جی ایس ٹی کے لاگو کرنے سے نہ صرف چھوٹی صنعتیں بند ہو چکی ہیں بلکہ اپوزیشن کے مطابق ڈھائی کروڑ افراد روزگار سے محروم بھی ہو گئے ہیں۔
مودی کی خارجہ پالیسی بھارت کی سابقہ حکومتوں کی پالسیوں کے برعکس رہی ہے۔ وہ جنوبی ایشیا میں بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تاہم چھوٹے ملکوں جیسے نیپال بھوٹان یا سری لنکا میں وہ چین کے اثر کو زائل کرنے میں ابھی تک ناکام نظر آرہے ہیں۔
پاکستان کے خلاف شدید بیانات دے کر یا بالاکوٹ میں حملہ کرکے مودی نے قومی سطح پر ہندو جذبات کو ابھارنے کی بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں ایگزٹ پولز کے مطابق انہیں ہندوؤں کی اکثریت نے ووٹ دیا حالانکہ بہتر معیشت کا ان کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔
خدشہ ہے کہ مودی کے دوبارہ آنے سے بھارت پاکستان کے بیچ پائے جانے والی کشیدگی مزید بڑھ جائےگی تاہم یہ بھی امکان بتایا جاتا ہے کہ امریکی دباؤ کے تحت مودی کو پاکستان کے ساتھ کشمیر مسلے پر بات چیت کرنے پر آمادہ کیا جا سکے گا جس کو بعض مبصرین کے مطابق پاکستان نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کے معاملے سے جوڑ دیا ہے اور جس کی ابتدا پاکستان میں کشمیری عسکریت پسندوں کے تقریباً 32 دفاتر کو مقفل کرنے سے ہوئی ہے۔
ملکی معیشت ہو یا خارجہ پالیسی، اپوزیشن جماعتوں نے ان کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا مگر مودی اگر پھر بھی دوبارہ انتخابات میں کامیاب ہو کر حکومت بناتے ہیں تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ بھارت کے لوگوں نے ہندتوا کو ووٹ دے کر ’بھارت راشٹر‘ بنانے کا آر ایس ایس کا خواب پورا کیا ہے اور نئے بھارت میں سیکیولر نواز، اقلیتوں یا اعتدال پسندوں کے لیے جگہ مزید تنگ ہو جائے گی جو شاید ہندوستانی آئین میں تبدیلی، صدارتی نظام کی شروعات اور مسلمانوں کے اخراج کا اشارہ دیتی ہے۔