مقامی شہریوں کے مطابق پنجاب کے ضلع سرگودھا کے گرلز کالج مثالی راوین کی بس چھٹی کے وقت طالبات کو گھر چھوڑنے کے لیے روانہ ہوئی۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کے علاقہ لاری اڈا کے قریب موٹر سائیکل سوار نوجوانوں نے مین سڑک پر ہی بس کو گھیر لیا اور بس میں سوار لڑکیوں پر جملے کسنے لگے جس سے بس میں سوار 20 سے زائد لڑکیاں خوفزدہ ہوگئیں۔
انہوں نے بس کے شیشے بند کرنا چاہے لیکن کئی شیشے بند نہ ہوئے تو انہوں نے پردے تان کر ان نوجوان لڑکوں کی نظروں سے بچنے اور انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ لڑکے جن میں چند کالج کے یونیفارم پہنے تھے، بھلا کیسے ان کمزور بچیوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے سے باز آتے؟
دور دور تک کوئی روکنے والا نہ تھا نہتی اورعزت کا پاس رکھنے والی یہ لڑکیاں شاید ان کے لیے کھیل تماشا تھیں اور وہ اپنی مردانہ برتری کو ثابت کر کے خود کو اور دیکھنے والوں کو لاشعوری تسکین پہنچاتے رہے۔ ڈرائیور نے بس تیز رفتاری سے لے جانے کی کوشش کی تو انہوں نے موٹر سائیکلوں سے راستہ روکا جب کہ بس میں موجود لڑکیوں نے چیخ وپکار بھی کی جو بہرے معاشرے میں سنی ان سنی کر دی گئی۔
یہ واقعہ 30 اپریل کو پیش آیا وہاں پر موجود نامعلوم شہری نے بس کا گھراؤ کرنے والوں کی موبائل کیمرہ سے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر بھی وائرل کر دی۔
لڑکیوں کے خدشات
بس میں سوار سیکنڈ ایئر کی طالبہ رابیعہ (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اپنے کالج کی دیگر طالبات کے ساتھ معمول کے مطابق چھٹی کے بعد گھر جانے کے لیے اسی بس میں سوار تھیں۔ ان کی رہائش گاہ کچھ ہی فاصلہ پر تھی جب سیٹلائٹ ٹاؤن کے قریب موٹرسائیکل سوار لڑکوں نے بس کا گھیراؤ کر کے آدھے گھنٹے تک طالبات کو شدید پریشان اور ہراساں کیے رکھا۔ اس دوران وہ بھی اس عذاب سے گزریں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ لڑکے اکثر یہاں پر ناکہ لگا کر موجود ہوتے ہیں اور بس کے آتے ہی جملے کستے ہیں، اندر فون نمبر کی پرچیاں پھینکتے ہیں اور لڑکیوں کو مخاطب کرنے کے لیے غیر مہذب زبان استعمال کرتے ہیں۔
اس بارے میں کئی بار کالج انتظامیہ کو آگاہ کیا گیا لیکن کسی نے پرواہ نہ کی۔ لڑکیاں گھر والوں کو بتانے سے گریز کرتی تھیں تاکہ جھگڑا نہ ہوجائے لیکن جس روز ویڈیو بنی اور سوشل میڈیا پر کالج کی لڑکیوں کے والدین نے دیکھی تو انہوں نے معاملہ جاننے کی کوشش کی۔ کئی طالبات کے والدین چند روز بعد کالج پہنچ گئے اور معاملہ انتظامیہ کے سامنے اٹھایا۔
کالج انتظامیہ اور پولیس کی روایتی بے حسی
ڈی پی او سرگودھا حسن مشتاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لڑکیوں کی بس کا گھیراؤ کرنے کے واقعہ کی ویڈیو آنے کے بعد طالبات کے والدین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن کالج انتظامیہ معاملہ کو دباتی رہی۔ والدین کو کارروائی کی تسلیاں دی جاتی رہیں۔
’معاملہ پولیس کے علم میں آتے ہی کارروائی شروع کر دی گئی۔ جب درخواست آئی ہے تو ہی قانونی مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔ کوشش ہوگی جب طالبات کی بسیں گزریں تو سڑکوں پر اہلکاروں کا گشت بڑھا دیں۔‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کی رہنما فائزہ رحمن نے کہا کہ پاکستان میں نوعمر لڑکیوں کو ہراساں کرنے اور زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس صورتحال میں سکیورٹی اداروں اور سماجی بے حسی نے بیشتر دختران پاکستان کوعدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جہاں مختلف شہروں میں نوجوان لڑکیاں ہی نہیں بلکہ دس سال سے بھی کم عمر بچیاں زیادتی کا نشانہ بنتی دکھائی دیتی ہیں انہیں قتل کرنے کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ معصوم بچی زینب سے لے کر فرشتہ سے ہونے والے غیر انسانی سلوک نے درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو شدید مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں سرعام سڑکوں پر بے حس نوجوانوں کی جانب سے سکول کالجز میں جانے والی بچیوں کو ہراساں اور انہیں تنگ کرنے کے واقعات معاشرے کی تنگ نظری اور مردوں کو عورت پر فوقیت دینے کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایک طالبہ کے والد نے بتایا کہ واقعہ کا علم ہونے پر بچیوں کے والدین نے کالج انتظامیہ پر دباؤ بڑھایا تو انہوں نے کارروائی کے لیے پولیس کو ٹیلی فون کر دیا۔
اسی دوران واقعہ کی اطلاع ملنے پر ضلعی پولیس افسران کی جانب سے متعلقہ ایس ایچ او کو کارروائی کی ہدایت کی گئی۔ جبکہ متعلقہ پولیس کو ایک شہری کی جانب سے ہیلپ لائن کے ذریعے وقوعہ کی اطلاع پہلے ہی دن کر دی گئی تھی۔ لیکن پولیس نے معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیا اور افسران کے حکم پر 20 روز بعد مقدمہ درج کیا گیا۔
ملزموں کو بھی جلد شناخت کر کے گرفتار کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ انہوں نے کہا پولیس حکام نے 20 روز سے زائد گزر جانے پر متعلقہ ایس ایچ او کو کارروائی کی ہدایت کی یہی وجہ ہے کہ واقعہ 30 اپریل کو پیش آیا جبکہ مقدمہ متعلقہ تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں بس ڈرائیور کی مدعیت میں 19مئی کو درج ہوا۔ لیکن سات ملزم شناخت کے باوجود گرفتار نہیں ہوئے۔
طالبہ کے والد نے اس واقعہ پرکئی سوالات اٹھائے
۔ کیا نوجوان بچیوں کی عزتوں اور تکریم کا تحفظ صرف والدین کی ہی ذمہ داری ہے؟
۔ تعلیمی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے حکام صرف درخواستوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں؟
- ایسے واقعات میں معاشرے کی بے حسی عام ہے لیکن کوئی واقعہ ہونے کے بعد ہمدردی کیوں جتائی جاتی ہے؟
۔ بچیوں سے زیادتی یا ان کے قتل کے بعد ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شہری کیوں جاگتے ہیں؟